اگر کسی عورت کو حیض آ جائے اور دو تین دن گزرنے کے بعد خون بہنا خشک ہو جائے اور پھر دو تین دن تک دن یا رات میں ایک آدھ دفعہ خون کی تھوڑی سی مقدار نکل آئے تو کیا یہ دن حیض میں شمار ہوں گے یا ان دنوں میں جس دنوں میں ایک آدھ دفعہ خون تھوڑا نکل آ رہا ہے ان دنوں میں مباثرت ہو سکتی ہے؟
واضح رہے کہ جب کسی عورت کی ماہواری کا خون اس کی عادت سے پہلے بند ہو جائے تو شوہر کے لیے ہم بستری، عادت کے دن تک جائز نہیں ہوتی،اس سے پہلے ہم بستری کرنا ایسا ہی ہے جیسا حیض کے ایام میں ہم بستری کرنا، ایسی صورت میں جب عادت پوری ہوجائے تو اس کے بعدشوہر ہم بستری کرسکتا ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں جب خون بند ہوا، اگر اس وقت عادت کے ایام مکمل ہو گئے ہوں تو ایسی صورت میں شوہر کے لیے ان ایام میں بیوی سے مباشرت جائز ہو گی اور اگر بیوی کی عادت زیادہ ایام کی ہو اور عادت کے ایام سے پہلے ہی خون بند ہو گیا ہو تو ایسی صورت میں شوہر کے لیے عادت کے ایام پورے ہونے سے پہلے مباشرت جائز نہیں ہو گی ، وقفہ کے بعد آنے والا خون حیض ہی شمار ہو گا۔ اور اگر ایک دو دن خون آکر رک گیا، اور درمیان میں وقفہ ہوگیا تو ابتدائی دن سے لے کر دسویں دن تک انتظار کرنا ہوگا، کیوں کہ احتمال ہے کہ دسویں دن خون آجائے، اور ایسی صورت میں پورے دس دن حیض شمار ہوگا، بہر صورت حیض کے درمیان جن دنوں یا جن اوقات میں خون کا وقفہ ہوتاہے اس میں ہم بستری جائز نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
«(ويحل وطؤها إذا انقطع حيضها لأكثره) بلا غسل وجوبًا بل ندبًا.(وإن) انقطع لدون أقله تتوضأ وتصلي في آخر الوقت، وإن (لأقله) فإن لدون عادتها لم يحل، وتغتسل وتصلي وتصوم احتياطًا؛ وإن لعادتها، فإن كتابية حل في الحال وإلا (لا) يحل (حتى تغتسل) أو تتيمم بشرطه (أو يمضي عليها زمن يسع الغسل) ولبس الثياب (والتحريمة) يعني من آخر وقت الصلاة لتعليلهم بوجوبها في ذمتها، حتى لو طهرت في وقت العيد لا بد أن يمضي وقت الظهر، كما في السراج.
(قوله: لم يحل) أي الوطء وإن اغتسلت؛ لأن العود في العادة غالب، بحر."
(کتاب الطہارت باب الحیض ج نمبر ۱ ص نمبر ۲۹۴،ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144211200188
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن