1۔ْمیں شادی شدہ ہوں اور مجھے pcos(پولی سسٹک اووری سنڈروم)ہے، اس وجہ سے میرے حیض کبھی باقاعدہ ہوتے ہیں اور کبھی نہیں ہوتے، کبھی تین دن ، کبھی چار دن تو کبھی چھ دن اور بعض اوقات بالکل نہیں آتے۔ مثال کے طور پر اگر جمعرات کو تھوڑا سا خون آیا، پھر ہفتہ کو آیا، اور پھر پیر کو آیا، لیکن صرف ایک یا دو قطرے، اور بعض اوقات پورا مہینہ اس طرح گزرتا ہے، اور پھر پانچ یا چھ دن کے بعد تھوڑا سا خون آتا ہے۔ ایسی صورت ِحال میں نماز کا کیا حکم ہے؟
2۔اور دوسری چیز یہ ہے کہ جب میں حیض کی وجہ سے نماز چھوڑتی ہوں، تو فوراً مشکلات آنے لگتی ہیں، ٹینشن بڑھ جاتی ہے، اور میں ڈرنے لگتی ہوں۔ ایسا محسوس ہوتاہے ،کہ میرا اللہ میرے ساتھ نہیں ہے، میرے اندر ایک خوف رہتا ہے۔
حیض کی کم از کم مدت تین دن ہے، اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے، تین دن سے کم میں آنے والا خون یا دس دن سے زیادہ آنے والا خون حیض شمار نہیں ہوگا، استحاضہ ہوگا، البتہ دس دن کے اندر وقفے وقفے سے جو خون آئے وہ پورا حیض ہی شمار ہوگا، نیز دو حیضوں کے درمیان پندرہ دن کا فاصلہ ضروری ہے، اور ا یک دفعہ حیض کی مدت مکمل کرلینے کے بعد پندرہ دن سے پہلے دوبارہ خون آئے تو وہ حیض شمار نہیں ہوگا ۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ کو اپنی عادت کے دنوں میں جب خون آئے،تو پہلے دن خون نظر آنے کےبعد دس دن کے اندر دوبارہ یا سہ بارہ خون آئے تو شروع سے آخر تک پورے ایام حیض کے شمار ہوں گے،حیض کے لیے مسلسل روزانہ باقاعدہ خون کا آنا ضروری نہیں ہے۔
اور اگر سائلہ کو ایک دن خون نظر آئےاور اس کے بعد دس تک خون نظر نہیں آیا یا دھبہ نظر نہیں آیا تو وہ حیض نہیں ہے، استحاضہ ہے۔ اسی طرح اگر ایک دفعہ حیض مکمل کرلینے کے بعد پندرہ دن پاکی سے پہلے دوبارہ خون نظر آجائے تو وہ بھی استحاضہ ہوگا۔اور استحاضہ کا حکم یہ ہے کہ جو ممنوعات حیض کی حالت میں ہیں وہ استحاضہ کی حالت میں نہیں ہیں، البتہ مستحاضہ کو ہر نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد نیا وضو کرنا ضروری ہے۔
2۔ عورتوں کو حیض آنا یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے، اور اس حالت میں نماز چھوڑنا یہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے، اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی تعمیل سے پریشانیاں دور ہوتی ہیں، پریشانیاں آتی نہیں ہیں، اس لیے سائلہ وساوس اور وہم کا شکار نہ ہو، بس شرعی حکم کے موافق اعمال کرتی رہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(هو) لغة: السيلان. وشرعا: على القول بأنه من الأحداث: مانعية شرعية بسبب الدم المذكور. وعلى القول بأنه من الأنجاس (دم من رحم)۔۔ (لا لولادة) خرج النفاس. وسببه ابتداء ابتلاء الله لحواء لأكل الشجرة.
و (أقله ثلاثة بلياليها) الثلاث، فالإضافة لبيان العدد المقدر بالساعات الفلكية لا للاختصاص، فلا يلزم كونها ليالي تلك الأيام؛ وكذا قوله (وأكثره عشرة) بعشر ليال، كذا رواه الدارقطني وغيره.
(والناقص) عن أقله والزائد) على أكثره أو أكثر النفاس أو على العادة وجاوز أكثرهما۔۔۔۔ (استحاضة.)
(وأقل الطهر) بين الحيضتين أو النفاس والحيض (خمسة عشر يوما) ولياليها إجماعا.
(قوله دم) شمل الدم الحقيقي والحكمي بحر: أي كالطهر المتخلل بين الدمين، فلا يرد أنه يلزم عليه أن لا تسمى المرأة حائضا في غير وقت درور الدم فافهم.
(قوله مانعية شرعية) أي صفة شرعية مانعة عما تشترط له الطهارة، كالصلاة، ومس المصحف، وعن الصوم، ودخول المسجد، والقربان بسبب الدم المذكور."
(كتاب الطهارة، باب الحيض، ج: 1، ص: 283، ط: سعيد)
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"وروى أبو يوسف عن أبي حنيفة أن الطهر المتخلل بين الدمين إذا كان أقل من خمسة عشر يوما لم يفصل وكثير من المتأخرين أفتوا بهذه الرواية؛ لأنها أسهل على المفتي والمستفتي."
(كتاب الطهارة، الباب السادس، الباب الأول، ج: 1، ص: 37، ط: رشيدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606102181
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن