بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایصالِ ثواب کی شرائط


سوال

بعض حضرات غوث پاک کے نام کا لنگر کرتے ہیں، اب اس میں یہ سنا تھا کہ اگر ایصال ثواب ہو تو حرام نہیں ہوتا، لیکن متعین تاریخ کی وجہ سے نہیں کھانا  چاہیے کہ یہ بدعت کے زمرہ میں آتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ جو شخص لنگر کر رہا ہے وہ کہہ رہا ہے کہ یہ ایصال ثواب ہے، اور تاریخ بھی یکم جمادی الاول رکھی ہے گیارہ تاریخ نہیں ہے، پہلے محفل ہوتی ہے پھر کھانا، اب ایسی صورت میں محفل میں شرکت کر کے کھانا جائز ہوگا؟ گنجائش ہوگی اس بارے میں؟  جواب جلد عنایت فرمادیں!

جواب

واضح رہے کہ  کسی بھی نیک عمل کے ذریعے ایصال ثواب کیا جاسکتاہے ،البتہ ایصال ثواب کے لیے شریعتِ  مطہر ہ  نے  کوئی دن یاوقت یا محفل یا خاص طریقہ متعین نہیں کیاہے،بلکہ کسی بھی وقت اور کسی بھی دن بغیر تخصیص وتعیین ایصالِ ثواب کیا جاسکتاہے ،اپنی طرف سے کوئی خاص دن اور خاص کیفیت متعین کرلینابدعت میں داخل ہوجاتاہے،لہذا   صورتِ  مسئولہ میں  مذکورہ ایصال ثواب  کے لیے یکم جمادی الاولیٰ کو پہلے محفل ہوتی ہے،  پھر کھانا  ہوتا ہے، لہٰذا یہ صورت بھی  بدعت  ہی  میں داخل ہے ، اور  واجب الترک ہے، ایسی محفل میں شرکت کر کے کھانے کی   گنجائش نہیں ہوگی۔بلکہ مکروہ ہوگا۔

مسند للامام احمد میں ہے:

" حدثنا سليمان بن داود، قال: حدثنا إسماعيل - يعني ابن جعفر -، قال: أخبرني العلاء، عن أبيه، عن أبي هريرة: أن رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم: ‌إن ‌أبي ‌مات وترك مالا ولم يوص، فهل يكفر عنه أن أتصدق عنه؟ فقال: " نعم ".

(‌‌حديث أبي رمثة رضي الله عنه (1) عن النبي صلى الله عليه وسلم،٤٣٦/١٤،ط : مؤسسة الرسالة)

سنن ابی داود میں ہے:

" عن أبي أسيد مالك بن ربيعة الساعدي قال: «بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ جاءه رجل من بني سلمة فقال: يا رسول الله، ‌هل ‌بقي ‌من ‌بر أبوي شيء أبرهما به بعد موتهما؟ قال: نعم، الصلاة عليهما، والاستغفار لهما، وإنفاذ عهدهما من بعدهما، وصلة الرحم التي لا توصل إلا بهما، وإكرام صديقهما".

(‌‌باب في بر الوالدين،٥٠٠/٤،ط : المطبعة الأنصارية بدهلي)

البحر الرائق میں ہے:

" والأصل فيه ‌أن ‌الإنسان ‌له أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو قراءة قرآن أو ذكرا أو طوافا أو حجا أو عمرة أو غير ذلك عند أصحابنا للكتاب والسنة أما الكتاب فلقوله تعالى {وقل رب ارحمهما كما ربياني صغيرا} [الإسراء: 24] ، وإخباره تعالى عن ملائكته بقوله {ويستغفرون للذين آمنوا} [غافر: 7] وساق عبارتهم بقوله تعالى {ربنا وسعت كل شيء رحمة وعلما فاغفر للذين تابوا واتبعوا سبيلك} [غافر: 7] إلى قوله {وقهم السيئات} [غافر: 9] ، وأما السنة فأحاديث كثيرة منها ما في الصحيحين «حين ضحى بالكبشين فجعل أحدهما عن أمته» ، وهو مشهور تجوز الزيادة به على الكتاب، ومنها ما رواه أبو داود «اقرءوا على موتاكم سورة يس".

( کتاب الحج، باب الحج عن الغیر، ٦٣/٣،ط : دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505100289

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں