بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایسے شخص کی اقتدا جس کا تلفظ درست نہ ہو


سوال

کیا ایسے شخص کی اقتدامیں نمازپڑھناجائزہے جس کی قرآت سن کرنمازکاخشوع ختم ہوجاتاہو(اس کی قرآت اورتلفظ عجیب ہونے کی وجہ سے) اور بعض الفاظ کاتلفظ جیساکہ (إهدناالصراط المستقيم) میں صراط کے بجائے طرات يا تراط لگتاہو تو کیا ایسے شخص کی اقتدامیں نمازپڑھناجائزہے؟

جواب

جواب سے پہلے بطورتمہید چندباتیں ذکر کی جاتی ہیں،  سوال  اگرکسی  خاص شخص  سے متعلق ہے تو جواب  سے پہلے  کچھ  اہم باتوں کی  وضاحت ضروری ہے:

1۔ کسی  خاص شخص سے متعلق سوال پوچھنا ہو تو  ضروری  ہے کہ جو دعویٰ یا الزام ہو اس کا ثبوت بھی پیش کیا جائے،  یا نزاعی مسئلہ ہو تو جانبین کا موقف مستند ذرائع سے پیش کیا جائے، اس لیے مذکورہ سوال جیسے معاملات میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ کسی مستند دار الافتاء میں ثبوت کے ساتھ ( مثلاً: تلاوت کی آڈیو  ریکارڈنگ کے ساتھ) حاضر ہوکر جواب معلوم کرلیا جائے۔

2۔ اور اگر ثبوت نہ ہو تو کسی خاص شخص کو نشانہ بنا کر سوال کرنا شرعاً  پسندیدہ ودرست نہیں ہے۔  اگر عمومی مسئلہ دریافت کرنا ہو تو یوں سوال کرلیا جائے کہ  اس طرح قرأت کرنا کہ جس میں (مثلاً) ایک حرف کو دوسرے سے تبدیل کرنا پایا جاتا ہو یا صفات کی رعایت نہ رکھی جاتی ہو کیا حکم ہے؟ اور ایسی قرأت کرنے والے کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم؟

بہر حال ذیل میں ایسی قرأت کا حکم تفصیلاً درج کیا جارہاہے، اگر واقعۃً کوئی شخص ایسے قراءت کرتا ہو  تو اس کا حکم یہ ہوگا۔  لیکن اس بات کا فیصلہ کرنا  کہ امام کی قرأت درست ہے یا غلط؟ اور اگر غلطیاں ہیں تو کس درجہ کی ہیں؟ یہ عوام اور ہر ایرے غیرے کا کام نہیں ہے، بلکہ یہ فیصلہ ماہر فن یعنی ماہر مجود قاری ہی کر سکتا ہے، اس  لیے درج ذیل  فتوے کے ذریعہ مسجد میں امام کے خلاف فتنہ کھڑا کرنا  اور انتشار پھیلانا درست نہیں ہے،  بلکہ امام صاحب کی قرأت کسی ماہر مجود قاری اور مفتی صاحب کو سنوا کر ان سے فیصلہ کروالیا جائے کہ امام صاحب کی قرأت کیسی ہے۔

واضح رہے کہ جو شخص مخارج اور صفات سے واقف نہیں،بوجہ ناواقفیت یا عدم التمییزکے اگر اس کی زبان سے ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف نکل جائے(خوہ کوئی حرف ہو)اور وہ یہ سمجھے کہ میں نے وہی حرف نکالاہے،جوقران شریف میں ہے،تو اسکی نماز فاسد نہ ہوگی،اور اس کی اقتدا درست ہے ۔اور جو شخص واقف ہے ،اور صحیح حرف نکالنے پر فعلا ًقادر بھی ہے،پھر بھی جان بوجھ کریا بے پروائی سے غلط حرف نکالتاہے،تو جس جگہ معنی میں تغیر فاحش ہوگا،اس کی نماز فاسدہوگی،اور اس کی    اقتدا درست نہ  ہوگی۔البتہ نماز کے جوازوعدم فساد سے یہ  ثابت نہیں ہوتاکہ اس  کے لیے اس طرح  پڑھتے رہنا جائز ہوگیا،اور پڑھنے والا گناہ گار بھی نہ رہے گا۔بلکہ اپنی قدرت کےموافق صحیح حروف پڑھنے کی مشق کرنا،اور کوشش کرتے رہنا ضروری ہے۔ورنہ گناہ گار ہوگا۔اور اگر وہ بعض حروف کو نکالنے پر بالکل قادر ہی نہیں (توتلا پن ہونے کے بناءپر)تو اس کی اقتداء درست نہ ہوگی۔اور  خشوع نماز کی روح ہے. لیکن نماز کو فاسد نہیں کرتا، تاہم جس امام کی  قراءت اور تلفظ عجیب (تجوید کےقواعد کےخلاف) ہوتو مقتدیوں پر لازم ہے کہ وہ مستقل امام کسی  اچھے (تجوید کےقواعد کےمطابق )پڑھنے والے کو مقرر کریں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"و في خزانة الأكمل قال القاضي أبو عاصم: ‌إن ‌تعمد ذلك تفسد، و إن جرى على لسانه أو لايعرف التمييز لاتفسد، و هو المختار حلية و في البزازية: و هو أعدل الأقاويل، و هو المختار اهـ و في التتارخانية عن الحاوي: حكى عن الصفار أنه كان يقول: الخطأ إذا دخل في الحروف لايفسد؛ لأن فيه بلوى عامة الناس؛ لأنهم لايقيمون الحروف إلا بمشقة. اهـ. و فيها: إذا لم يكن بين الحرفين اتحاد المخرج و لا قربه إلا أن فيه بلوى العامة كالذال مكان الصاد أو الزاي المحض مكان الذال و الظاء مكان الضاد لاتفسد عند بعض المشايخ.قلت: فينبغي على هذا عدم الفساد في إبدال الثاء سينا و القاف همزة كما هو لغة عوام زماننا، فإنهم لايميزون بينهما و يصعب عليهم جدا كالذال مع الزاي و لا سيما على قول القاضي أبي عاصم و قول الصفار، و هذا كله قول المتأخرين، و قد علمت أنه أوسع و أن قول المتقدمين أحوط قال في شرح المنية: و هو الذي صححه المحققون و فرعوا عليه، فاعمل بما تختار، و الاحتياط أولى سيما في أمر الصلاة التي هي أول ما يحاسب العبد عليها و كثير من المشايخ أفتوا به قال القاضي الإمام أبو الحسن و القاضي الإمام أبو عاصم: إن تعمد فسدت و إن جرى على لسانه أو كان لايعرف التميز لاتفسد و هو أعدل الأقاويل و المختار هكذا في الوجيز للكردري"

(كتاب الصلاة،باب:مالايفسد الصلوة ومالا يكره فيها،ج:اص:633،ط:دارالفكر بيروت)

فتاوى ہنديه ميں هے:

"و من ‌لايحسن بعض الحروف ينبغي أن يجهد و لايعذر في ذلك."

(كتاب الصلاة،الفصل الخامس في زلةالقاري،ج:1،ص:74)

حاشیۃ الطحطاوی علی شرح نور الایضاح میں ہے:

"قال الجلال السيوطي رحمه الله: اختلفوا في الخشوع هل هو من أعمال القلب كالخوف أو من أعمال الجوارح كالسكون أو عبارة عن المجموع قال الرازي الثالث أولى وعن علي رضي الله عنه الخشوع في القلب وعن جماعة من السلف الخشوع في الصلاة السكون فيها وقال البغوي الخشوع قريب من الخضوع إلا أن الخضوع في البدن والخشوع في البدن والبصر والصوت"

(کتاب الصلاۃ ،فصل فی المکروہات،ص:359،ط:دارالکتب العلمیۃ)

المبسوط للسرخسي ميں ہے:

"{فقوله تعالي: فصل لربك وانحر} [الكوثر: 2] قيل المراد منه وضع اليمين على الشمال على النحر، وهو الصدر ولأنه موضع نور الإيمان فحفظه بيده في الصلاة أولى من الإشارة إلى العورة بالوضع تحت السرة، وهو أقرب إلى الخشوع والخشوع زينة الصلاة.ولنا حديث علي ( رضي الله تعالى عنه)"

  (كتاب الصلاة ،كيفيةالدخول في الصلاة،ج:1،ص:25،ط:دار المعرفه بيروت)

تاتارخانیہ میں ہے:

يجب أن يكون إمام القوم  في الصلاة أفضلهم في الورع و التقوى و القراءة."

(کتاب الصلاۃ ،باب :من هو احق با الامامة،ج:1،ص:600ط:ادارۃالقران)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508101186

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں