بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے ایک واقعہ کی حقیقت


سوال

شیعہ کہتے ہیں کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت سے انکار کیا تو  حضرت  ابوبکر رضی اللہ عنہ  نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ حضرت   علی المرتضی رضی اللہ عنہ  کوہتھکڑیاں   لگا کر گرفتار کر و ، چنانچہ   انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر کو آگ لگا دی،دروازہ کی ایک چھوکٹ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر گری ،   جس سے ان کا حمل ضائع ہوا   ؛ اس وجہ سے ہم حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہا  سے نفرت کرتے ہیں ۔

کیا یہ واقعہ درست ہے ؟ اس واقعہ کی کوئی حقیقت ہے ؟

جواب

صورت مسئولہ میں  یہ کہنا کہ حضرت  ابوبکر رضی اللہ عنہ  نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ حضرت   علی المرتضی رضی اللہ عنہ  کوہتھکڑیاں   لگا کر گرفتار کر و اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر کو آگ لگا دی،دروازہ کی ایک چوکھٹ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر گری ان کا حمل ضائع ہوا   وغیرہ ،تو یہ  واقعات  اگر حقیقت پر مبنی  ہوتے تو ان کے درمیان عدوات  ہوتی،دوستی نہ ہوتی،  جبکہ  علی المرتضی رضی اللہ عنہ  نے اپنی بیٹی فاطمہ  کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ  عنہ سے  کیا  اور اپنی اولاد کے نام ابوبکر وعمر فاروق  رکھے  ،نیز حضرت  فاطمہ  رضی اللہ عنہا کے گھر جلانے  سے متعلق رافضی روایات کے بارے میں    تحفہ اثنا عشریہ میں ہے :

            "یہ ساری باتیں ان کی من گھڑت  افتراء اور بے اصل و جھوٹ   ہیں  ، ان پر عقل کا اندھا اور بہرہ ہی یقین کرے گا  اور پھر مزہ کی بات یہ  کہ یہ روایات خود   شیعی روایات سے  ٹکراتی  اور  ان کے جھوٹ  کا بھانڈہ  پھوڑ تی  ہیں"۔

(پچسواں  دھوکہ ،97،ط:دار الاشاعت مترجم :خليل الرحمن  نعمانی )

نبراس میں ہے :

قلنا كذب  محض .

(نبراس  : 529،ط: قديمی )

خود شيعوں کا معتبر عالم  ابن  ابی الحدید  شیعی  نہج البلاغۃ  کی شرح میں لکھتا  ہے کہ   اس  واقعہ کا کوئی  اعتبار نہیں ہے :

  وأما ما ذكره من الهجوم على دار فاطمة وجمع الحطب لتحريقها فهو خبر واحد غير موثوق به ، ولا معول عليه في حق الصحابة، بل ولا في حق أحد من المسلمين ممن ظهرت عدالته.

(4/62،ط:بيروت)

اللہ تعالی  کا ارشاد مبارک ہے :

مُحَمَّدٌ رسُولُ اللّه وَالّذِينَ مَعَه أَشِدّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَينَهُم تَرهُم رُكَّعًا سُجَّدًا يبتَغُونَ فَضلا مِنَ اللّهِ وَرِضوَانًا سِيمَاهُم فی وُجُوهِهِم مِن أَثَرِ السُّجُودِ ذلِكَ مَثَلُهُم فِی التَّورَاةِ وَمَثَلُهُم فِی الإنجِيلِ كَزَرعٍ أَخرَجَ شَطأَه فَأزَرَه فَاستَغلَظَ فَاستَوَى عَلَى سُوقِه يُعجِبُ الزّرّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الكُفَّارَ .                                    

(سورۃالفتح:الاٰيۃ: 29)

ترجمہ :

محمد الله تعالی کے رسول ہیں اور جولوگ  آپ کی صحبت یافتہ ہیں  ،  وہ کافروں کے مقابلے میں تیز ہیں اور آپس میں مہربان ہیں۔  اے مخاطب !تو ان کو  دیکھے گا  کہ کبھی رکوع کررہے ہیں، کبھی سجدہ کررہے ہیں، اللہ تعالی کے فضل اور رضامندی کی جستجو  میں لگے  ہوئے  ہیں،   ان کے آثار بوجہ تاثیر سجدہ کے ان کے چہروں  پر نمایا ں  ہیں،  یہ ان کے اوصاف  توریت میں  ہیں اور انجیل  میں ان کا یہ وصف  ہے کہ جیسے کھیتی  سے  اس نے  اپنی سوئی نکالی، پھر اس نے اس کو قوی کیا، پھروہ اور موٹی  ہوئی، پھر اپنے تنوں پر سیدھی کھڑی   ہوگئی کہ کسانوں کو بھلی معلوم ہونے  لگی تاکہ ان سے کافروں کو جلا دے ۔

قرآن مجید میں ہے :

وَأَلَّفَ بَينَ قُلُوبِهِم لَو أَنفَقتَ مَا فِي الأرضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفتَ بَينَ قُلُوبِهِم وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَينَهُم إِنَّه عَزِيزٌ حَكِيمٌ.

(سورۃ الأنفال:آیۃ، 63)

ترجمہ :

ان کے قلوب میں اتفاق پیدا کردیا اور اگر آپ دنیا بھر کامال خرچ کرتے، تب بھی ان کے قلوب میں اتفاق  پیدا نہ کرسکتے،لیکن اللہ ہی نے  ان میں  باہم اتفاق پیدا کردیا ،بیشک وہ زبر دست  ہیں حکمت والے ہیں ۔

                                                           (بيان القرآن ،سورت الأنفال ،جلد2،ط:رحمانیہ)

خلفائے ثلاثہ کے اسماء مبارکہ  حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ  کی اولاد میں  موجود  ہیں ،جو ان کے آپس میں محبت ہونے پر دلالت کرتا ہے ،  كتب شیعہ میں یہ نام ہیں   اسی طرح اہل سنت کے کتب میں بھی ہیں ۔

ابوالفرج اصفہانی علی بن حسین بن محمد  صاحب کتاب الاغانی  المتوفی۳۵۶؁ھ مشہور شیعہ مورخ  لکھتا ہے :

وعثمان بن علي بن أبي طالب عليه السلام أمه أم البنين أيضا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وابوبكربن علي بن ابي طالب عليه السلام لم يعرف إسمه  وأمه ليلي  بنت مسعود بن خالدالخ                           

(مقاتل الطالبين ص33، 34 ط: قديمي  سن طباعت 1307ھ  تہران)

شيخ المفيد المتوفی۴۱۳؁)    نے اپنی کتاب  الاشاد  میں باب ذکر اولاد امیر المومنین  علیہ السلام  کے تحت ذکر کیا ہے :

فأولاد  أمير المؤمين عليه السلام  سبعة و عشرون  ولدا  ذكرا وٲنثي  الحسن والحسين ... وعمر ورقيۃ كانا توأمين .

(167،ط:دار الكتب الإسلاميه تہران  طبع جدید)

حضرت محمد ابن الحنفیہ رحمہ اللہ تعالی جو  علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں،  حضرت ابوبکراور عمر رضی اللہ عنہما   کے بارے میں ان کے تاثرات (جوکہ بخاری کی روایت میں ہیں)شیعوں کی آنکھوں پر اگر تعصب و عناد کی چادر نہ ہو تو کھول دینے کے لیے کافی ہیں فرماتے ہیں  ۔

بخاری  شريف میں ہے :

  عن محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، حدثنا جامع بن أبي راشد، حدثنا أبو يعلى، عن محمد ابن الحنفية، قال: قلت لأبي أي الناس خير بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: «أبو بكر»، قلت: ثم من؟ قال: «ثم عمر»، وخشيت أن يقول عثمان، قلت: ثم أنت؟ قال: «ما أنا إلا رجل من المسلمين».

(باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: «لو كنت متخذا خليلا»،5/7،ط: دار طوق النجاة)

ترجمہ :

            محمدابن الحنفیہ  نے بیان کیا  کہ میں نے اپنے والد(علی رضی اللہ عنہ )سے پوچھا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون  ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ، میں نے پوچھا اس کے بعد ؟انہوں نے  فرمایا  اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ،  مجھے اس کا اندیشہ تھا کہ (اگر پھر میں نے اتنا پوچھا کہ اس کے بعد ؟تو کہہ دیں گے  عثمان  )اس لیے میں نے عرض کی ، اس کے بعدآپ کا درجہ  ہے ؟ فرمایا کہ  میں تو صرف مسلمانوں کی جماعت کا ایک فرد ہوں ۔

(ترجمہ :بخاری شريف  2/366،ط:اسلامی کتب خانہ لاہور  ،مترجم مولانا ظہور الباری اعظمی )

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100433

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں