بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک شریک ،دوسرے شریک سے مشترکہ کاروبار کے حساب و کتاب کا مطالبہ کر سکتا ہے


سوال

مسئلہ یہ ہے کہ  (مثلًا) زید اور حارث نے اپنے ذاتی سرمایہ کے ساتھ  اسپیر پارٹس کی تجارت شروع کی  اور چالیس سال سےتجارت جاری ہے، ایک مدت بعد تجارت میں ترقی کی منزل طے کرتے ہوئے اسپیر پارٹس کی دوسری دکان آج سے پندرہ سال پہلے کھولی  ،  ان دونوں دکانوں میں حارث نے  اپنے دو لڑکوں کو کاروبار میں شامل کیا اور  زید نے  اپنے لڑکوں کو کاروبار میں شامل کرنا چاہا تو حارث نے زید سے کہا کہ ہم دونوں میں تجارت  جمے گی  نہیں  تو زید نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور کاروبار چلتا رہا۔ حارث کے لڑکوں نے طویل عرصہ  تجارت میں ہونے کے باوجود  نہ  تو کبھی  سالانہ حساب و کتاب دیا اور نہ ماہانہ آمدنی میں سے کچھ حصہ دیا ، ہاں البتہ اس طویل عرصے میں صرف پچاس ہزار درہم زید تک پہنچائے تھے  ۔ اس بات پرہماللہ تعالیٰ کا شکر  ادا کرتے ہیں کہ حارث کے بیٹوں  نے  مال ِتجارت کی زکوۃ  پابندی سے ہر سال ادا کی ہے ،لیکن نفع ونقصان کا کوئی حساب  وکتاب نہیں  دیا ہے۔آج سے  دوسال قبل زید کا  انتقال ہو  گیا ہے ،  وراثت کی تقسیم کا مسئلہ درپیش ہوا  تو زید کے ورثا نے حارث اور ان کے بیٹوں  سے حساب  و کتاب مطالبہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی حساب و  کتاب نہیں ، اسپیر پارٹس کی دونوں دکانیں بھری  بازار میں موجود ہیں اور  اسپیر پارٹس کے کاروباری مراکز  ہیں ۔

 سوال یہ  ہے کہ زید کے ورثا  مذکورہ مشترکہ کاروبار اور  تجارت کے حساب و کتاب کا  اور اس میں موجود مرحوم زید کے حصے کا مطالبہ مرحوم   زید کے پارٹنر حارث سے کر یں گے یا کسی اور سے ؟ پارٹنر جواب دہ ہے یا پارٹنر کے بیٹے؟

دوسری بات  یہ ہے کہ اگر حارث حساب و کتاب دینے کے لیے تیار نہ ہو اور اس میں معاونت نہ کرے تو کیا  زید کے ورثا دونوں پاٹنروں(زیدوحارث)  کی کسی تیسری مشترکہ ملکیت کو اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں یا نہیں ؟ براہ کرم  شرعی راہ نمائی  فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں زید کے ورثا ء     مذکورہ کاروبار میں موجود زید کے حصے  کا حساب  وکتاب مرحوم کے پارٹنر حارث سے کرسکتے ہیں اور حارث پر شرعاً  لازم  ہے کہ وہ اپنے پارٹنر مرحوم زید کے ورثاء کو پورا  حساب  وکتاب بتاکر مرحوم زید  کا حصہ ان کے حوالے کردے اور اپنے دونوں بیٹوں کو بھی اس بات کا پابند بنائے کہ وہ بھی پورا حساب و کتاب  دیں۔

اور اگر بالفرض حارث  اور اس کے بیٹے،  حساب و کتاب دینے پر تیار نہیں ہوتے  تومرحوم زیدکے ورثاء کے لیے زید  کی ملکیت  کے  بقدر املاک پر قبضہ جائز ہوگا۔

السنن الكبرى ميں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لايحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه."

(كتاب الغضب، باب من غصب لوحا فأدخله في سفينة أو بنى عليه جدارا،6/166،رقم: 11545 ،ط: دار الكتب العلمية)

حاشيۃ ابن عابدين میں ہے:

"مطلب فيما لو ادعى على شريكه خيانة مبهمة قلت: بقي ما لو ادعى على شريكه خيانة مبهمة، ففي قضاء الأشباه: لايحلف. ونقل الحموي عن قارئ الهداية أنه يحلف وإن لم يبين مقدارا لكن إذا نكل عن اليمين لزمه أن يبين مقدار ما نكل فيه.

ثم قال: وأنت خبير بأن قارئ الهداية لم يستند إلى نقل، فلايعارض ما نقله في الأشباه عن الخانية (قوله: ومثله المضارب والوصي والمتولي) سيذكر الشارح في الوقف عن القنية أن المتولي لا تلزمه المحاسبة في كل عام ويكتفي القاضي منه بالإجمال لو معروفا بالأمانة ولو متهما يجبره على التعيين شيئا فشيئا، ولا يحبسه بل يهدده؛ ولو اتهمه يحلفه. "

(كتاب الشرکۃ، مطلب فیما یبطل الشركۃ ، فروع فی الشركۃ : 4/321 ، ط : سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144304100056

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں