بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مجلس میں تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں


سوال

شوہر نے  بیوی کو ایک مجلس میں ان الفاظ سے (میں ہوش و حواس میں تمہیں طلاق دیتا ہوں،  طلاق دیتا ہوں ، طلاق دیتا ہوں ) تین طلاقیں دیں  ،پھر کمرے سے باہر نکل کر دوبارہ آیا اور پھر ان الفاظ سے تین طلاقیں دیں۔

پوچھنا یہ ہے کہ کتنی طلاقیں و اقع ہوئیں اور دوبارہ ساتھ رہنے کی کیا   صورت ہو گی؟

شوہر کا دعوی ہے کہ یہ ایک طلاق ہے،  تین طلاقیں  نہیں ہیں ، کیا  شوہر کا یہ دعوی صحیح ہے کہ نہیں ؟

جواب

  واضح رہے کہ تین طلاقیں  خواہ الگ الگ  مجلس میں دی جائیں یا ایک ساتھ ایک ہی مجلس میں دی جائیں بہرصورت تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں، یہی حکم قرآن کریم ،احادیث مبارکہ ،اقوال ِصحابہ  کرام اور چاروں ائمہ کرام  کے نزدیک ہے ۔

لہذا  صورت ِمسئولہ میں اگر واقعۃً سائل کی بہن کواس کے شوہر  نے   یہ کہا ہے کہ : "میں ہوش و حواس میں تمہیں طلاق دیتا ہوں،  طلاق دیتا ہوں ، طلاق دیتا ہوں "تو اس سے اس کی  بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہو گئیں ہیں  ، اگرچہ اس نے  مذکورہ   کلمات ایک ہی مجلس میں کیوں نہ کہے ہوں  ،بیوی  شوہر  پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی  ہے،نکاح ختم ہوگیا ہے ،اب    نہ رجو ع  کی گنجائش ہے اور  نہ  دوبارہ نکاح   ہوسکتا ہے۔مطلقہ بیوی اپنی  عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل  نہ ہو اگر حمل  ہو تو بچہ کی پیدائش تک )گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے،شوہر کا یہ دعوی  کرنا کہ تین طلاقیں نہیں ہوئیں، بلکہ ایک طلاق واقع ہوئی ہے، درست نہیں ہے ۔

البتہ اگر   عورت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل  نہ ہو اگر حمل  ہو تو بچہ کی پیدائش تک )  عدت گزار کر کسی دوسری جگہ شادی کرے اور اس دوسرےشوہر سے صحبت (جسمانی  تعلق) ہو جائے، پھر اس کے بعد وہ  دوسر ا شوہر اسے طلاق دے دے یااس کا انتقال ہو جائے تو اس کی عدت  گزار نے کے بعد مذکورہ شخص اس کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتا ہے ، تاہم طلاق کی شرط کے ساتھ ایسا کرنا مکروہ ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"{الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (229) فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ} [البقرة:230]۔"

و فی صحيح البخاري (7/ 43):

"5261 - حدثني محمد بن بشار، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال: حدثني القاسم بن محمد، عن عائشة، أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول۔"

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 232)

"(قوله ثلاثة متفرقة) وكذا بكلمة واحدة بالأولى...وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث."

فتاوی ہندیہ میں ہے۔

"وإن كان ‌الطلاق‌ ثلاثا في الحرة و ثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق،الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به 473/1، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100663

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں