بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

'اے مطلقہ' سے طلاق کا حکم


سوال

میاں بیوی کے درمیان کوئی جھگڑا، بحث نہ ہوئی ہو اور بیوی ایک کمرے میں شام کے اذکار پڑھ رہی ہو اور اچانک شوہر دوسرے کمرے سے آ کر "اے مطّلقہ اے مطّلقه کے لفظ سے مخاطب کرے اور شوہر نے یہ لفظ ٧ بار ادا کئے بیوی نے کوئی جواب نہیں دیا، کیا طلاق واقع ہو جائے گی؟ جبکہ چند سال پہلے میرے شوہر مجھے ایک طلاق دے چکے ہیں۔  جب میں نے اپنے میاں سے اے مطلقہ کی صدا سے مخاطب کرنے کی نیت پوچھی اور پہلی طلاق یاد دلائی تو انہوں نے کہا کہ جو میں نے چند سال پہلے ایک طلاق دی تھی،  وہ ذہن میں تھی،  آگے کی طلاق دینے کی نیت نہیں تھی۔ میں کافی دنوں سے سلام کے جواب اور کسی کام کے سوال میں ہاں، نا کے علاوہ بات نہیں کرتی تو کہنے لگے کہ میں نے ایسا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ تم کوئی بات کروگی، اب یہاں شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر واقعۃً   شوہر نے پچھلی طلاق کو ذہن میں رکھ کر ’’اے مطلقہ‘‘ سے سائلہ کو پکارا ہے تو اس صورت میں سائلہ پر ان الفاظ کی وجہ سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

"ولو قال: يا مطلقة وقع عليها الطلاق؛ لأنه وصفها بكونها مطلقة ولا تكون مطلقة إلا بالتطليق، فإن قال: أردت به الشتم لا يصدق في القضاء؛ لأنه خلاف الظاهر؛ لأنه نوى فيما هو وصف أن لا يكون وصفا فكان عدولا عن الظاهر فلا يصدقه القاضي، ويصدق فيما بينه وبين الله تعالى؛ لأنه قد يراد بمثله الشتم ولو كان لها زوج قبله، فقال: عنيت ذلك الطلاق دين في القضاء؛ لأنه نوى ما يحتمله لفظه؛ لأنه وصفها بكونها مطلقة في نفسها من غير الإضافة إلى نفسه، وقد تكون مطلقته وقد تكون مطلقة زوجها الأول، فالنية صادفت محلها فصدق في القضاء، وإذا لم يكن لها زوج قبله لا يحتمل أن تكون مطلقة غيره فانصرف الوصف إلى كونها مطلقة له."

(كتاب الطلاق، فصل في النية في أحد نوعي الطلاق وهو الكناية، 3 / 101، دار الکتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144301200035

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں