بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آیت رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا کو پڑھنے کا حکم اور فضیلت


سوال

 والدین کی مغفرت کے لیے " رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا " پڑھنا کیسا ہے؟  اور  اس آیتِ  مبارکہ  کے  پڑھنے کی کتنی فضیلت ہے؟ 

جواب

قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوْآ إِلَّآ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَآ أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ً وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا﴾  [الإسراء: 23، 24]

         ترجمہ: اور تیرے رب  نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی  عبادت مت کرو، اور تم (اپنے)  ماں  باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو،  اگر  تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں  بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا ، اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا ، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا  کہ اے  پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انھوں نےمجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔ ( ازبیان القرآن)

اس آیت کے تحت  حضرت مولانااشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے تفسیر بیان القرآن میں لکھا ہے:

’’ ارْحَمْهُمَامیں جو دعا کے لیے فرمایا ہے، ظاہر امر ندب و استحباب کے  لیے ہے، اور بعض نے کہا ہے کہ وجوب کے  لیے، لیکن عمر بھر میں ایک بار دعا کرنے سے بھی واجب ادا ہوجائے گا۔ اور بدلائلِ شرعیہ یہ دعا کرنا متقید ہے  ایمانِ ابوین کے  ساتھ۔ البتہ اگر حالتِ  کفر میں زندہ ہوں اور دعائے رحمت بمعنی دعائے ہدایت کی جاوے تو جائز ہے۔ ‘‘

اس آیت کے تحت  حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے تفسیر عثمانی میں لکھا ہے:

’’یعنی جب میں بالکل کمزور و ناتواں تھا انہوں نے میری تربیت میں خون پسینہ ایک کردیا،  اپنے خیال کے موافق میرے لیے ہر ایک راحت و خوبی کی فکر کی،  ہزارہا آفات و حوادث سے بچانے کی کوشش کرتے رہے، بارہا میری خاطر اپنی جان جوکھوں میں ڈالی، آج ان کی ضعیفی کا وقت آیا ہے، جو کچھ میری قدرت میں ہے ان کی خدمت و تعظیم کرتا ہوں،  لیکن پورا حق ادا نہیں کرسکتا،  اس لیے تجھ  سے  درخواست کرتا ہوں کہ اس بڑھاپے میں اور موت کے بعد ان پر نظرِ  رحمت فرما۔ ‘‘

اس آیت کے تحت  حضرت مولاناادریس کاندھلوی صاحب رحمہ اللہ نے تفسیر معارف القرآن میں لکھا ہے:

’’ خلاصہ یہ کہ نہ ان کی بات سے ملول ہو اور نہ ان کی بات کو رد کرو اور ان کے سامنے نرمی اور ادب سے بات کرو جس سے ان کی تعظیم و تکریم اور ادب مترشح ہوتا ہو اور ازراہِ شفقت و تواضع نہ از راہِ سیاست و مصلحت اور ان کے سامنے بازوئے ذلت کو پست کردو، یعنی ان سے بکمالِ تواضع و انکسار کے ساتھ برتاؤ کرو۔  جَنَاحَ الذُّلّ کے معنی ذلت کے بازو ہیں، حال آں کہ ذلت کے بازو نہیں ہوتے تو یہ کلام بطورِ استعارہ ہے کہ جس طرح پرندہ اپنے بچے کی تربیت کے وقت اپنے بازو پست کرکے اس کو اپنی آغوث میں لے لیتا ہے اسی طرح تم کو  چاہیے کہ ایسی ہی تربیت اور شفقت کا معاملہ اپنے والدین کے ساتھ کرو اور ان کے لیے اس طرح دعا کرو کہ ’’اے پروردگار ان دونوں پر ایسا خاص رحم فرما جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا اور کمال شفقت و رحمت سے میری پرورش کی جب کہ میں بالکل عاجز اور لاچار تھا۔‘‘

 والدین اگر  مسلمان ہوں تو ان کے حق میں دعائے رحمت کے معنی ظاہر ہیں اور اگر کافر ہیں اور زندہ ہیں تو ان کے حق میں دعاءِ رحمت کے معنی یہ ہیں کہ اے اللہ ان کو ایمان اور اسلام کی ہدایت نصیب فرما۔ کافر کے حق میں ہدایت سے بڑھ کر کوئی رحمت نہیں اور اگر والدین بحالتِ کفر مرچکے ہوں تو ان کے  لیے دعائے مغفرت و رحمت جائز نہیں،کما قال تعالیٰ : {ما كان للنبی والذین اٰمنوا ان یستغفروا للمشركین ولوكانوا اولى قربی من بعد ماتبین لهم انھم اصحٰب الجحیم}،  اس آیت کی تفسیر سورة توبہ کے اخیر میں گزر چکی ہے،  وہاں دیکھ لی جائے،  غرض یہ کہ حق جل شانہ نے اس آیت میں اول والدین کے ساتھ احسان کا حکم دیا اور پھر اس کے بعد پانچ باتوں کا حکم دیا۔

 اول : لا تقل لهما أفّ۔ ان کے سامنے اُف مت کرو۔

 دوم : ولا تنهرهما۔ ان کو جھڑکو مت اور ان کے سامنے آواز بلند نہ کرو۔

 سوم : وقل لهما قولا كریما۔ ان کے سامنے ادب سے بات کرو۔

 چہارم : واخفض لهما جناح الذل من الرحمة۔ یعنی کمال تواضع اور کمال شفقت کے ساتھ ان سے برتاؤ کرو۔

 پنجم : وقل رب ارحمهما كما رَبَّيَانِي صغیرا۔ یعنی ان کے لیے  دعائے مغفرت وحمت کرو۔

 مطلب یہ ہے کہ خالی ادب اور تواضع اور شفقت پر اکتفا نہ کرو؛ کیوں کہ یہ سب چیزیں فانی ہیں، بلکہ دعا کرو اللہ تعالیٰ اپنی رحمتِ باقیہ اور دائمہ سے ان کی دست گیری کرے اور رحمتِ آخرت کی دعا مسلمان والدین کے لیے مخصوص ہے۔ ‘‘

اس آیت کے تحت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ نے معارف القرآن میں لکھا ہے :

’’والدین کے ادب کی رعایت خصوصا بڑھاپے میں :

والدین کی خدمت و اطاعت والدین ہونے کی حیثیت سے کسی زمانے اور کسی عمر کے ساتھ مقید نہیں، ہر حال اور ہر عمر میں والدین کے ساتھ اچھا سلوک واجب ہے، لیکن واجبات و فرائض کی ادائیگی میں جو حالات عادۃً رکاوٹ بنا کرتے ہیں، ان حالات میں قرآنِ حکیم کا عام اسلوب یہ ہے کہ اَحکام پر عمل کو آسان کرنے کے لیے مختلف پہلوؤں سے ذہنوں کی تربیت بھی کرتا اور ایسے حالات میں تعمیلِ احکام کی پابندی کی مزید تاکید بھی۔

والدین کے بڑھاپے کا زمانہ جب کہ وہ اولاد کی خدمت کے محتاج ہوجائیں، ان کی زندگی اولاد کے رحم وکرم پر رہ جائے اس وقت اگر اولاد کی طرف سے ذرا سی بےرخی بھی محسوس ہو تو وہ ان کے دل کا زخم بن جاتی دوسری طرف بڑھاپے کے عوارض طبعی طور پر انسان کو چڑچڑا بنا دیتے ہیں، تیسرے بڑھاپے کے آخری دور میں جب عقل وفہم بھی جواب دینے لگتے ہیں تو ان کی خواہشات ومطالبات کچھ ایسے بھی ہوجاتے ہیں جن کا پورا کرنا اولاد کے لیے مشکل ہوتا ہے، قرآنِ حکیم نے ان حالات میں والدین کی دل جوئی اور راحت رسانی کے اَحکام دینے کے ساتھ انسان کو اس کا زمانہ طفولیت یاد  دلایا کہ کسی وقت تم اپنے والدین کے اس سے زیادہ محتاج تھے جس قدر آج وہ تمہارے محتاج ہیں تو جس طرح انہوں نے اپنی راحت و خواہشات کو اس وقت تم پر قربان کیا اور تمہاری بےعقلی کی باتوں کو پیار کے ساتھ برداشت کیا اب جبکہ ان پر محتاجی کا یہ وقت آیا تو عقل و شرافت کا تقاضا ہے کہ ان کے اس سابق احسان کا بدلہ اداء کرو آیت میں (آیت)كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا سے اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور آیات مذکورہ میں والدین کے بڑھاپے کی حالت کو پہنچنے کے وقت چند تاکیدی احکام دیے گئے ہیں۔

اول یہ کہ ان کو اُف بھی نہ کہے لفظ اُف سے مراد ہر ایسا کلمہ ہے جس سے اپنی ناگواری کا اظہار ہو یہاں تک کہ ان کی بات سن اس طرح لمبا سانس لینا جس سے ان پر ناگواری کا اظہار ہو وہ بھی اسی کلمہ اُف میں داخل ہے،  ایک حدیث میں بروایت حضرت علی (رضی اللہ عنہ) رسولِ  کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ایذا رسانی میں اُف کہنے سے بھی کم کوئی درجہ ہوتا تو یقینًا وہ بھی ذکر کیا جاتا، (حاصل یہ ہے کہ جس چیز سے ماں باپ کو کم سے کم بھی اذیت پہنچے وہ بھی ممنوع ہے)۔

دوسراحکم ہے وَلَا تَنْهَرْهُمَا لفظِ "نهر"کے معنی جھڑکنے ڈانٹنے کے ہیں، اس کا سببِ ایذا  ہونا ظاہر ہے،  تیسرا حکم (آیت) وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا ہے،  پہلے دو حکم منفی پہلو سے متعلق تھے جن میں والدین کی ادنی سے ادنی بارِ خاطر کو روکا گیا ہے، اس تیسرے حکم میں مثبت انداز سے والدین کے ساتھ گفتگو کا ادب سکھلایا گیا ہے کہ ان سے محبت و شفقت کے نرم لہجہ میں بات کی جائے، حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا جس طرح کوئی غلام اپنے سخت مزاج آقا سے بات کرتا ہے۔ چوتھا حکم (آیت) وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاح الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِجس کا حاصل یہ ہے کہ ان کے سامنے اپنے آپ کو عاجز و ذلیل آدمی کی صورت میں پیش کرے جیسے غلام آقا کے سامنے جناح کے معنی بازو کے ہیں لفظی معنی یہ ہیں کہ والدین کے لیے اپنے بازو عاجزی اور ذلت کے ساتھ جھکائے، آخر میں من الرحمة کے لفظ سے ایک تو اس پر متنبہ کیا کہ والدین کے ساتھ یہ معاملہ محض دکھاوے کا نہ ہو، بلکہ قلبی رحمت وعزت کی بنیاد پر ہو، دوسرے شاید اشارہ اس طرف بھی ہے کہ والدین کے سامنے ذلت کے ساتھ پیش آنا حقیقی عزت کا مقدمہ ہے؛ کیوں کہ یہ واقعی ذلت نہیں بلکہ اس کا سبب شفقت و رحمت ہے۔

پانچواں حکموَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ والدین کی پوری راحت رسانی تو انسان کے بس کی بات نہیں اپنی مقدور بھر راحت رسانی کی فکر کے ساتھ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے بھی دعا کرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان کی سب مشکلات کو آسان اور تکلیفوں کو دور فرمائے یہ آخری حکم ایسا وسیع اور عام ہے کہ والدین کی وفات کے بعد بھی جاری ہے جس کے ذریعہ وہ ہمیشہ والدین کی خدمت کرسکتا ہے۔

مسئلہ : والدین اگر مسلمان ہوں تو ان کے  لیے رحمت کی دعا  ظاہر ہے،  لیکن اگر وہ مسلمان نہ ہوں تو ان کی زندگی میں یہ دعا اس نیت سے جائز ہوگی کہ ان کو دنیوی تکلیف سے نجات ہو اور ایمان کی توفیق ہو مرنے کے بعد ان کے لیے دعاءِ  رحمت جائز نہیں ۔(قرطبی ملخصا) ‘‘

خلاصہ یہ ہوا کہ والدین کے احسانات اور حقوق کو سامنے رکھتے ہوئے انسان کو  اپنے والدین کی خدمت اور ادب و احترام کے ساتھ ساتھ ان کے  لیے بطورِ  دعا آیت میں مذکور دعاءِ  رحمت و  مغفرت کو ان کی زندگی میں بھی اور ان کی وفات کے بعد بھی کثرت سے پڑھنا چاہیے، لیکن کسی حدیث میں اس آیت کو پڑھنے کی الگ سے کوئی فضیلت ہمیں نہیں  ملی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201229

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں