بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آیت سجدہ کے کچھ الفاظ پڑھنے کی صورت میں سجدہ تلاوت کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص آیت سجدہ کے صرف ابتدائی دو لفظ پڑھے اس لفظ کے علاوہ جس  لفظ کے اوپر لائن لگی ہوتی ہے ،یاصرف وہ لفظ پڑھےجس پر لائن لگی ہوتی ہے ،تو کیا ان دو صورتوں  میں اس کو سجدہ تلاوت ادا کرنا پڑے گا؟ مثال کے طور پر نویں پارے میں سورہ اعراف کی  آیت نمبر 206  میں صرف ’’ان الذىن ‘‘پڑھے یاصرف ’’ ىسجدون ‘‘پڑھے۔

جواب

صورت مسئولہ میں پہلی صورت جس میں اس آیت کے  حرف سجدہ (یعنی جس پر لائن لگی ہوتی ہے )کے بغیر صرف آیت سجدہ کے ابتدائی دو الفاظ پڑھے جائیں ، اکثر آیت نہ پڑھے۔تو ایسی  صورت میں پڑھنے والے پر سجدہ تلاوت لازم نہیں ہوگا،کیوں کہ اس نے لفظِ سجدہ کی تلاوت نہیں کی ،اور دوسری صورت جس میں قاری صرف حرف سجدہ (جس حرف پر لائن لگی ہوتی ہے ) پڑھے ،تو اگر اس کے ماقبل یا مابعد میں ایک دو الفاظ ملا لے ،تو ایسی صورت میں تو قاری پر سجدہ تلاوت لازم ہوگا،البتہ صرف حرف سجدہ پڑھنے سے سجدہ تلاوت لازم نہیں ہوگا،کیوں کہ اس نے آیت سجدہ کی تلاوت نہیں کی ۔

فتا وی شامی میں ہے :

"‌‌باب سجود التلاوة

من إضافة الحكم إلى سببه (يجب) بسبب (تلاوة آية) أي أكثرها مع حرف السجدة..

(قوله أي أكثرها إلخ) هذا خلاف الصحيح الذي جزم به في نور الإيضاح. ففي السراج: وهل تجب السجدة بشرط قراءة جميع الآية أم بعضها؟ فيه اختلاف. والصحيح أنه إذا قرأ حرف السجدة وقبله كلمة أو بعده كلمة وجب السجود وإلا فلا. وقيل لا يجب إلا أن يقرأ أكثر آية السجدة مع حرف السجدة؛ ولو قرأ آية السجدة كلها إلا الحرف الذي في آخرها لا يجب عليه السجود اهـ لكن قوله: ولو قرأ آية السجدة إلخ يقتضي أنه لا بد من قراءة الآية بتمامها كما يفهم من إطلاق المتون ويأتي قريبا ما يؤيده إلا أن يقال سياق الكلام قرينة على أن المراد بقوله إلا الحرف إلخ الكلمة التي فيها مادة السجود وإطلاق الحرف على الكلمة شائع في عرف القراء."

(کتاب الصلاۃ،‌‌باب سجود التلاوة،ج:2،ص:103،ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے :

"ولو قرأ آية السجدة إلا الحرف الذي في آخرها لا يسجد ولو قرأ الحرف الذي يسجد فيه وحده لا يسجد إلا أن يقرأ أكثر آية السجدة بحرف السجدة، وفي مختصر البحر لو قرأ واسجد وسكت ولم يقل واقترب يلزمه السجود، كذا في التبيين."

(کتاب الصلاۃ،الباب الثالث عشر في سجود التلاوة،ج:1،ص:132،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101697

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں