بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کی جماعت کا حکم


سوال

عورتیں اگر جماعت کرائیں تو اقامت کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں عورت  کے لیے کسی  بھی صورت میں امام بننا جائز  نہیں ہے،عورت کی عورت کے لیے  امامت مکروہ تحریمی ہے،  اسی  طرح عورت کا  اذان اوراقامت  دینا بھی جائز نہیں  ہے ، عورتوں کے لیے یہ ہی حکم ہے کہ  گھر کے اندر تنہا اور ایسے مقام میں نماز پڑھیں جوکہ سب سے زیا دہ پوشیدہ  ہو ۔

چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا   سے  روایت   ہے: 

"عن عائشة أنّ رسول الله صلى الله عليه و سلّم قال: لا خير في جماعة النساء إلّا في المسجد أو في جنازة قتيل."

(إعلاء السنن،،242/4،باب کراهة جماعة النساء ط/ إدارۃ القرآن)

ترجمہ: ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عوتوں کی جماعت میں کوئی خیر نہیں ہے مگر یہ ہے کہ وہ جماعت مسجد میں (مردوں کی جماعت کے ساتھ ) ہو یا کسی شہید کی نماز جنازہ کی جماعت ہو۔‘‘

اعلاء السنن میں ہے :

"فعلم أن جماعتهن وحدهن مکروهة."

(إعلاء السنن 4/ 242، باب کراهة جماعة النساء،ط: ادارۃ القرآن)

ایضا:

" عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰه عنه أنه قال: لا تؤم المرأة . قلت: رجاله کلهم ثقات."

(إعلاء السنن،243/4، باب کراهة جماعة النساء،ط:ادارۃ القرآن)

حاشیہ طحطاوی میں ہے:

"و كره جماعة النساء بواحدة منهن و لا يحضرن الجماعات؛ لما فيه من الفتنة و المخالفة."

(باب من أحقّ بالإمامة، ص/304، ط/دار الکتب العلمیة)

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے :

" ویکره تحریماً جماعة النساء ولو في التراویح - إلی قوله - فإن فعلن تقف الإمام وسطهن فلو قدمت أثمت.

(قوله: ويكره تحريماً) صرح به في الفتح والبحر (قوله: ولو في التراويح) أفاد أن الكراهة في كل ما تشرع فيه جماعة الرجال فرض أو نفل".

(565/1،باب الإمامة،ط:سعید ) 

علامہ ابن قدامۃ المغنی میں لکھتے ہیں :

"وان صلى خلف مشرك أو امرأة أو خنثي مشكل أعاد الصلاة."

(34/2،باب الإمامة، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100547

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں