بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کا دین سیکھنے کے لیے جلسہ منعقد کرنا کیسا ہے؟


سوال

عورتوں کا مسجد میں جمع ہوکر جلسہ کرنا جب کہ مکمل باپردہ ہو اورکوئی مرد بھی وہاں نہ ہوں اورآواز بھی باہر نہ جاۓ تو اور نماز کا وقت بھی نہ ہو تو ایسی حالت میں عورتوں کا مسجد میں جمع ہوکر بیان سننا سنانا اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

خواتین  کی  اصلاح اور دینی تربیت کے لیے علاقہ کے کسی گھر میں باپردہ اہتمام کے ساتھ مستند متدین عالم کی وعظ و نصیحت کی مجلس رکھی جا سکتی ہے،  جس میں خواتین شرکت کرسکتی ہیں،  ایسا کرنا خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی ثابت ہے کہ خواتین نے حضور صلی اللہ علیہ سلم  کی خدمت میں درخواست کی تھی تو ان کے لیے مخصوص دن اور مخصوص جگہ میں اجتماع تجویز فرما دیا گیا تھا۔

لہذا صورتِ مسئولہ  میں عورتوں کے لیے وعظ اور نصیحت کے لیے کوئی دن اور وقت مقرر کرلیا جائے،اور عورتیں اس وقت میں کسی جگہ پردے کے اہتمام کے ساتھ شریک ہوجائیں، تو ایسا کرنا درست ہے،تاہم خواتین کو مسجد شرعی میں جمع کرنے سے اجتناب کیا جائے:

1:اس لیے کہ خواتین مسائل کے ناواقفیت کے باعث ممکن ہے کہ  ناپاکی کے ایام میں ہوں،جب کہ حیض ونفاس والی عورت کا مسجد میں آنا جائز نہیں ۔

2:خواتین عموماً جب جمع ہوں، تو دنیوی باتوں میں مشغول ہوجاتی ہے،یہ مسجد کے آداب کے خلاف ہے۔

3:نیز عموماً خواتین کے ساتھ چھوٹے بچے بھی ہوتے ہیں،گندگی کرسکتے ہیں،اس سے مسجد کی تلویث کا اندیشہ ہے۔

4:مسجد میں مرد حضرات کی آمد ورفت مستقل رہتی ہے،بے پردگی کا اندیشہ ہے۔

5:تجربہ اور مشاہدہ یہی ہے ،کہ ایک ہی جگہ مرد وزن کا  مستقل جمع ہونا،اگر چہ الگ الگ اوقات میں ہو، فتنے کا باعث بن ہی جاتا ہے۔

لہذا عورتوں کے لیے مسجد سے ہٹ کر کوئی علیحدہ جگہ مقرر کی جائے۔

صحیح بخاری میں روايت  ہے :

"عن أبي سعيد الخدري: قال النساء للنبي صلى الله عليه وسلم: غلبنا عليك الرجال، فاجعل لنا يوما من نفسك، فوعدهن يوما لقيهن فيه، فوعظهن وأمرهن، فكان فيما قال لهن: (ما منكن امرأة تقدم ثلاثة من ولدها، إلا كان لها حجابا من النار). فقالت امرأة: واثنين؟ فقال: (واثنين)."

(كتاب العلم،  باب: هل يجعل للنساء يوم على حدة في العلم، ج:1، ص:50، رقم:101، ط:دار ابن كثير)

ترجمہ:"ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ عورتوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے فائدہ اٹھانے میں) مرد ہم سے آگے بڑھ گئے ہیں، اس لیے آپ اپنی طرف سے ہمارے (وعظ کے) لیے (بھی) کوئی دن خاص فرما دیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے ایک دن کا وعدہ فرما لیا۔ اس دن عورتوں سے آپ نے ملاقات کی اور انہیں وعظ فرمایا اور (مناسب) احکام سنائے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا اس میں یہ بات بھی تھی کہ جو کوئی عورت تم میں سے (اپنے) تین (لڑکے) آگے بھیج دے گی تو وہ اس کے لیے دوزخ سے پناہ بن جائیں گے۔ اس پر ایک عورت نے کہا، اگر دو (بچے بھیج دے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں! اور دو (کا بھی یہ حکم ہے) ۔"

عمدة القاري میں ہے:

"بيان استنباط الأحكام: الأول: فيه سؤال النساء عن أمر دينهن وجواز كلامهن مع الرجال في ذلك، وفيما لهن الحاجة إليه."

(كتاب العلم، باب: هل يجعل للنساء يوم على حدة في العلم، ج:2، ص:134، ط:دار الفكر)

"المبسوط للسرخسي "میں ہے:

"ومنها أن لا تدخل المسجد؛ لأن ما بها من الأذى أغلظ من الجنابة والجنب ممنوع من ‌دخول ‌المسجد فكذلك ‌الحائض، وهذا؛ لأن المسجد مكان الصلاة فمن ليس من أهل أداء الصلاة ممنوع من دخوله...وليس للحائض مس المصحف ولا ‌دخول ‌المسجد ولا قراءة آية تامة من القرآن."

 (‌‌كتاب الحيض و النفاس، فصل مراهقة رأت الدم فجاءت تستفتي قبل أن يتمادى بها الدم، ج:3، ص:153، 195، ط:دار المعرفة)

"تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق "میں ہے:

"قال رحمه الله (ودخول مسجد والطواف) أي يمنع الحيض ‌دخول ‌المسجد، وكذا الجنابة تمنع لقوله عليه الصلاة والسلام فإني لا أحل المسجد لحائض ولا جنب."

 (كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:56، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله بأن يجلس لأجله) فإنه حينئذ لا يباح بالاتفاق لأن المسجد ما بني ‌لأمور ‌الدنيا. وفي صلاة الجلابي: الكلام المباح من حديث الدنيا يجوز في المساجد وإن كان الأولى أن يشتغل بذكر الله تعالى، كذا في التمرتاشي هندية."

(کتاب الصلاۃ،باب الامامة،ج:1،ص:662،سعید)

وفیہ ایضاً:

" ويحرم إدخال صبيان ومجانين حيث غلب تنجيسهم وإلا فيكره

(قوله: ويحرم إلخ) لما أخرجه المنذري " مرفوعًا «جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم، وبيعكم وشراءكم، ورفع أصواتكم، وسل سيوفكم، وإقامة حدودكم، وجمروها في الجمع، واجعلوا على أبوابها المطاهر» " بحر. والمطاهر جمع مطهرة بكسر الميم، والفتح لغة: وهو كل إناء يتطهر به كما في المصباح، والمراد بالحرمة كراهة التحريم لظنية الدليل. وأما قوله تعالى: {أن طهرا بيتي للطائفين} [البقرة: 125]- الآية فيحتمل الطهارة من أعمال أهل الشرك تأمل؛ وعليه فقوله وإلا فيكره أي تنزيها تأمل."

(کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا،ج:1، ص:656،  ط: سعید)

"تقریرات الرافعي علی الدر" میں ہے:

" قول الشارح: وإلا فیکرہ أي حیث لم یبالوا بمراعات حق المسجد من مسح نخامۃ، أو تفل في المسجد، وإلا فإذا کانوا ممیزین ویعظمون المساجد بتعلم المساجد بتعلم من ولیھم، فلاکراهة في دخولهم."

 (تقریرات رافعي علی الدر ،ج:2، ص:82،  ط:زکریا)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408100161

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں