بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کےلیے چہریں یابھوؤں کے درمیان بال بنانے کاحکم


سوال

بھنوؤں کے درمیان جوبال ہوتے ہیں ان کاہٹاناکیساہے؟اسی طرح چہرے کے بالوں کو ہٹانا کیساہے، بعض لوگ اس میں بہت سی تاویلات کرتےہیں،عورتیں یہ سب کچھ تزیین کےلیے کرتی ہیں، کیاایساکرنا درست ہے؟براہ کرم راہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ انسان کو اللہ جل شانہ نے اشرف المخلوقات ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین اور خوبصورت  تخلیق کے ساتھ پیدافرمایاہے، اس کے ہرہرعضو میں انتہائی مناسب توازن پیدافرمایاہے،جس میں کسی شرعی اور فطری تبدیلی کے علاوہ خودساختہ تبدیلی، مصنوعی حسن  پیداکرنا درست نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ شروع میں تزیین اور تحسین کی غرض سے عورتیں دانتوں کے درمیان مصنوعی فاصلہ بنایاکرتی تھیں ،تو اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا،اور ایسی خودساختہ حسن کو تغیرلخلق اللہ میں شمارفرماکر ایسے عورتوں کے متعلق اللہ جل شانہ کی لعنت فرمائی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں عورتوں بھوؤں کے درمیان بال اکھاڑنا یا اسے باریک بنانے کی غرض سے اطراف سے بال مونڈنایااکھاڑنا شرعاجائز نہیں ہے،حدیث شریف میں اللہ کے بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے،البتہ چہرے پر ظاہرہونے والے بالوں (مثلاًداڑھی،مونچھ،یادیگر بال جو عورت کے حسن وجمال کو متاثرکرے)کو صاف کرناجائزہے،اسی طرح اگر ابروحداعتدال سے بہت زیادہ پھیلے ہوئےہوں ،جو دیکھنے میں عیب شمارہوتے ہوں ،تو ایسی صورت میں ان ابروکو درست کرکےاعتدال  تک بنانے کی گنجائش ہوگی،تاہم مردوں کی مشابہت سے بچناضروری ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں روایت ہے:

"وعن عبد الله بن مسعود قال: لعن الله الواشمات والمستوشمات والمتنمصات والمتفلجات للحسن المغيرات خلق الله فجاءته امرأة فقالت: إنه بلغني أنك لعنت كيت وكيت فقال: ما لي لا ألعن من لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ومن هو في كتاب الله فقالت: لقد قرأت ما بين اللوحين فما وجدت فيه ما نقول قال: لئن كنت قرأتيه لقد وجدتيه أما قرأت: (ما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا)؟ قالت: بلى قال: فإنه قد نهى عنه.''

(کتاب اللباس،باب الترجل،الفصل الاول،ج:2،ص:1262،ط:المکتب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"(والنامصة إلخ ) ذكره في الاختيار أيضاً، وفي المغرب: النمص نتف الشعر ومنه المنماص المنقاش اهـ ولعله محمول على ما إذا فعلته لتتزين للأجانب، وإلا فلو كان في وجهها شعر ينفر زوجها عنها بسببه ففي تحريم إزالته بعد؛ لأن الزينة للنساء مطلوبة للتحسين، إلا أن يحمل على ما لا ضرورة إليه؛ لما في نتفه بالمنماص من الإيذاء.  وفي تبيين المحارم: إزالة الشعر من الوجه حرام إلا إذا نبت للمرأة لحية أو شوارب فلا تحرم إزالته بل تستحب."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس،ج:6، ص:373،ط: سعید)

''آپ کے مسائل اورا ن کا حل ''میں ہے:

"سوال :میری بھنویں آپس میں ملی ہوئی ہیں،بھنویں تو نہیں بناتی ہوں،مگر بگربھنویں الگ کرنے کےلیے درمیان میں سےبال صاف کردیتی ہوں،کیا میرایہ عمل درست ہے؟

جواب:یہ عمل درست نہیں۔''

وفیہ ایضاً:

'':کیاخواتین کےلیے  چہریں،بازوؤں،اور بھنوؤں کےدرمیان رُواں صاف کرنا گناہ ہے؟جواب مدلل دیجئےگا۔

جواب :محض زیبائش کےلیے تو فطری بناوٹ کو بدلنا جائز نہیں ،آنحضرت صلی اللہ اللہ علیہ وسلم نے بال نوچنے اور نچوانے والیوں پر لعنت فرمائی ہے(مشکواۃ شریف ،ص:381)البتہ اگرعورت کےچہرے پر غیرمعتادبال اُگ آئیں،تو ان کے صاف کرنےکی فقہاء نے اجازت لکھی ہے،اسی طرح جن بالوں سے شوہر کو نفرت ہو ان کے صاف کرنے کی بھی اجازت دی ہے۔"

(جسمانی وضع قطع،ج:8،ص:232،ط:مکتبہ لدھیانوی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101179

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں