بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کے لیے صلوۃ التسبیح کی جماعت کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس  مسئلے کے بارے میں کہ  چند  مستورات ایک گھر میں درس قران پاک کے لیے جمع ہوتی ہے،  اور وہاں پر ایک صاحب علم عورت صلاۃ التسبیح کی نماز پڑھانے کے لیے عورتوں کے صف میں تھوڑا سا آگے کھڑے ہو کر نماز پڑھاتی ہے،  جس میں وہ تسبیح یعنی تیسرا کلمہ پڑھتی ہے،  اور باقی عورتیں اس کے پیچھے اپنا سبق پڑھتی ہے رکوع سجدہ اور سلام  میں  باقی سب عورتیں  اس کی  اقتداء کرتی ہے،  قران و حدیث یا فقہ کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں  کہ ان کا یہ عمل درست ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ نوافل کی جماعت خواہ صلاۃ التسبیح کی ہو یا کوئی اور نفل کی تداعی ہو (یعنی باقاعدہ اہتمام کے ساتھ تین افراد   سے زائد ہوں)  تو مکروہ     تحریمی ہے،اسی طرح عورت کا عورتوں کے لیے امام بننا بھی مکروہ تحریمی ہے؛ اس لیے خواتین تنہا اپنی  صلوۃ التسبیح  ادا کریں ، جماعت کا اہتمام نہ کریں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مستورات کا  صلاۃ التسبیح کی جماعت کے لیے  جمع ہونا اور مذکورہ  عالمہ کا ان کو جماعت کے ساتھ صلاۃ التسبیح پڑھانا درست نہیں ہے،اس کو ترک کرنا ضروری ہے ۔

إعلاء السنن میں    ہے:

"عن علي ابن أبي طالب انه قال لا تؤم المرأة."

ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: عورت امامت نہیں کرائے گی۔

(إعلاء السنن، باب کراهة جماعة النساء،ج:4، ص:242 ط: إدارۃ القرآن)

طبرانی  میں ہے:

عن أم سلمة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "صلاة ‌المرأة في بيتها خير من صلاتها في حجرتها، وصلاتها في حجرتها خير من صلاتها في دارها، وصلاتها في دارها خير من صلاتها خارج."

ترجمہ: ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے روایت کی ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  عورت کی نماز اس کے اپنے گھر میں صحن کے بجائے کمرے کے اندر زیادہ افضل ہے اور اس کی اپنے  کمرے میں نماز اس کے گھر کی نماز سے بہتر ہے، اور اس کی  اپنے گھر میں نماز اس کی باہر کی نماز سے بہتر ہے۔"

(المعجم الاوسط للطبراني، باب الميم، ج:9، ص:9 ، رقم 9101 ، ط : دار الحرمين قاهره)

(2) مشکاۃ شریف میں ہے:

۔وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "صلاة ‌المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها وصلاتها في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها . رواه أبو داود."

ترجمہ: عورت کی نماز اس کے اپنے گھر میں صحن کے بجائے کمرے کے اندر زیادہ افضل ہے ، بلکہ کمرے کی بجائے ( اندرونی ) کوٹھری میں زیادہ افضل ہے ۔

(مشكاة شريف ،ج:1، ص:334، رقم  1063، ط: المكتب الاسلامى)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) يكره تحريمًا (جماعة النساء) و لو التراويح في غير صلاة جنازة (لأنها لم تشرع مكررة).. فإن فعلن تقف الإمام وسطهن فلو قدمت أثمت..أفاد أن الصلاة صحیحة وأنها إذا توسطت لاتزول الکراهة وإنما أرشد و إلی التوسط؛ لأنه أقل کراهة التقدم."

(كتاب الصلوة. باب الإمامة، ج:1، ص:565، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(ولا يصلي الوتر و) لا (التطوع بجماعة خارج رمضان) أي يكره ذلك  على سبيل التداعي، بأن يقتدي أربعة بواحد كما في الدرر...(قوله أربعة بواحد) أما اقتداء واحد بواحد أو اثنين بواحد فلا يكره، وثلاثة بواحد فيه خلاف بحر عن الكافي وهل يحصل بهذا الاقتداء فضيلة الجماعة؟ ظاهر ما قدمناه من أن الجماعة في التطوع ليست بسنة يفيد عدمه تأمل. بقي لو اقتدى به واحد أو اثنان ثم جاءت جماعة اقتدوا به. قال الرحمتي: ينبغي أن تكون الكراهة على المتأخرين. اهـ

(كتاب الصلوة. قبيل باب إدراك الفريضة، ج:2، ص:48، ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله وجماعة النساء) أي وكره جماعة النساء؛ لأنها لاتخلو عن ارتكاب محرم و هو قيام الإمام وسط الصف فيكره."

(كتاب الصلوة، باب الإمامة، ج:1، ص:372،  ط:دار الکتاب الإسلامي)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

صلوۃ  التسبیح میں عورتوں کی جماعت:

سوال [۳۳۶۳] : ہمارے گاؤں میں عورتیں صلوۃ التسبیح کی جماعت کرتی ہیں اور جماعت کی شکل یہ ہوتی ہے کہ ان کا امام پیڑھا بچھا کر پیچھے بیٹھ جاتا ہے اور اگر بچہ روتا ہے تو اس کو چپکا کر دیا جاتا ہے اور کتا ہوتا ہے تو اس کو بھی دفع کر دیا جاتا ہے۔

الجواب حامداً ومصلياً:

عورتوں کی جماعت فرض نماز میں مکروہ ہے  اور صلوۃ التسبیح تو نفل ہے اس کی جماعت مردوں کے لئے بھی مکروہ ہے، عورتوں کے لیے اس کی کراہت میں زیادہ شدت ہو گی  ، اگر وہی نماز پڑھاتی ہے جو پیڑھا بچھا کے پیچھے بیٹھتی ہے اور کتے وغیرہ کو دفع کرتی ہے تو بالکل نماز نہیں ہوتی   اور یہ حقیقہ نماز ہی نہیں بلکہ جہالت کی پوٹ ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم ۔

حرره العبد محمود غفر له، دار العلوم دیوبند، ۸۵/۹/۱۶ھ۔الجواب صحیح: بنده نظام الدین عفی عنہ ، دار العلوم دیوبند، ۸۵/۹/۱۶ھ۔

(کتاب الصلوۃ، باب السنن و النوافل، ج:7، ص:252، ط:ادارۃ الفاروق)

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

صلوٰة التسبیح کی جماعت بدعتِ حسنہ نہیں:

س… کافی تحقیق کے بعد بھی یہ پتہ نہ چل سکا کہ صلوٰة التسبیح کبھی باجماعت پڑھی گئی ہو، کیا یہ نفل نماز جماعت سے پڑھی جاسکتی ہے یا اس فعل کو “بدعتِ حسنہ” میں شمار کرتے ہوئے اسے جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟

ج… حنفیہ کے نزدیک نوافل کی جماعت مکروہ ہے، جبکہ مقتدی تین یا زیادہ ہوں، یہی حکم “صلوٰة التسبیح” کا ہے، اس کی جماعت بدعتِ حسنہ نہیں، بلکہ بدعتِ سیئہ ہے۔

(کتاب الصلوۃ، باب السنن و النوافل، ج:4، ص:218، ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100630

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں