بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کا گاڑی چلانا اور سامان لینے کے لیے گھر سے باہر نکلنے کا حکم


سوال

عورت کا گاڑی چلانا جائز ہے؟ اگر گھر میں کوئی مرد نہ ہو تو عورت گاڑی میں سامان لینے باہر جاسکتی ہے؟ برائے مہربانی اس کی وضاحت کیجئے۔

جواب

واضح رہے کہ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا، اور زمانۂ جاہلیت کے دستور کے موافق  بے پردگی کے ساتھ اور بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے اور گھومنے پھرنے سے منع کیا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورت چھپانے کی چیز ہے،  جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تانک جھانک میں لگ جاتا ہے"،اس لیے عام حالات  میں بلا ضرورت عورت کا گھر سے نکلنا اور گاڑی چلانا  درست نہیں ہے، خاص طور پر موجودہ ماحول میں عورت کے لیے گھر سے  باہر نکلنے اور گاڑی چلانے میں بہت سے  مفاسد وخرابیاں  اور احکامِ شرعیہ کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، فقہائے کرام نے شرعی وطبعی ضرورتوں کے لیے (جب کہ ضرورت ایسی ہو کہ بغیر باہر نکلے مصیبت ٹلنے یا کام پورا ہونے کی کوئی سبیل نہ ہو) عورت کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے، لیکن وہ بھی اس شرط کے ساتھ مقید ہے کہ عورت مکمل پردہ وبرقع کی حالت میں ہو، اور برقع بھی ایسا ہو جو پورے بدن کو چھپاتا ہو، دیدہ زیب ونقش ونگار والا، زرق برق، نظروں کو خِیرہ کردینے والا نہ ہو،نیز جس طرح مردوں کو حکم ہے کہ وہ عورتوں اور غیر محرم پر نظر نہ ڈالیں، اسی طرح عورتوں کو بھی حکم ہے کہ وہ غیر محرم مردوں پر نظر نہ ڈالیں، جب کہ گاڑی چلاتے وقت ہر طرح کے (یعنی جوان اور بڑی عمر کے) مردوں پر نظر پڑنا لازمی امر ہے، اس سے بچنا ممکن نہیں ہے اور یہ فتنہ کا باعث ہو سکتا ہے، نیز جب کوئی عورت اور نوجوان لڑکی  گاڑی چلاتی ہے، تو مردوں کی نگاہیں اس کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہیں،   اور یہ بھی فتنہ کا باعث ہے، اس لیے بلا ضرورت عورتوں کا شوقیہ گاڑی چلانا جائز نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں عورتوں  کے لیے  شدید ضرورت کی بناء پر اور کوئی شرعی محذور نہ پائے جانے کی صورت میں پردہ کے پورے اہتمام کے ساتھ یعنی برقعہ پہن کر چہرہ چھپا کر تو گاڑی چلانے کی اجازت ہے، لیکن بلاضرورت یا   بے پردگی  کے ساتھ   نہ تو باہر نکلنا جائز ہوگا اور نہ ہی گاڑی چلانا جائز ہوگا۔

قرآن کریم میں ہے:

" وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ."[الأحزاب: 33]

ترجمہ:اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو اور تم نمازوں کی پابندی رکھو اور زکاۃ دیا کرو اور اللہ کا اور اس کے رسول (علیہ السلام) کا کہنا مانو ۔ (بیان القرآن)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «المرأة عورة فإذا خرجت ‌استشرفها الشيطان» . رواه الترمذي.(عنه) أي عن ابن مسعود (عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: المرأة عورة فإذا خرجت) أي من خدرها (‌استشرفها الشيطان) أي زينها في نظر الرجال وقيل: أي نظر إليها ليغويها ويغوي بها والأصل في الاستشراف رفع البصر للنظر إلى الشيء وبسط الكف فوق الحاجب والعورة السوأة وكل ما يستحى منه إذا ظهر، وقيل أنها ذات عورة والمعنى أن المرأة غيرها بها فيوقعها أو أحدهما في الفتنة أو يريد بالشيطان شيطان الإنس من أهل الفسق أي إذا رأوها بارزة استشرفوها بما بثه الشيطان في نفوسهم من الشر ومحتمل أنه رآها الشيطان فصارت من الخبيثات بعد أن كانت من الطيبات. (رواه الترمذي)."

(كتاب النكاح، باب النظر، ج:5، ص:2054، ط: دار الفكر)

 کنز العمال میں ہے:

"وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «ليس للنساء نصيب في الخروج ‌إلا ‌مضطرة."

(كتاب الصلاة، باب الخروج إلى العيدين في طريق والرجوع في غيره، ج:2، ص:200، ط: مكتبة القدسي، القاهرة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وحيث أبحنا لها الخروج فبشرط ‌عدم ‌الزينة في الكل، وتغيير الهيئة إلى ما لا يكون داعية إلى نظر الرجال واستمالتهم."

(‌‌كتاب النكاح، ج:3، ص:146، ط: سعید)

و فیہ ایضاً:

"لا تركب مسلمة ‌على ‌سرج للحديث. هذا لو للتلهي، ولو لحاجة غزو أو حج أو مقصد ديني أو دنيوي لا بد لها منه فلا بأس به..... (قوله للحديث) وهو " «‌لعن ‌الله ‌الفروج ‌على ‌السروج» ذخيرة. لكن نقل المدني عن أبي الطيب أنه لا أصل له اهـ. يعني بهذا اللفظ وإلا فمعناه ثابت، ففي البخاري وغيره «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المتشبهين من الرجال بالنساء والمتشبهات من النساء بالرجال» وللطبراني «أن امرأة مرت على رسول الله صلى الله عليه وسلم متقلدة قوسا فقال: لعن الله المتشبهات من النساء بالرجال والمتشبهين من الرجال بالنساء» " (قوله ولو لحاجة غزو إلخ) أي بشرط أن تكون متسترة وأن تكون مع زوج أو محرم (قوله أو مقصد ديني) كسفر لصلة رحم."

(‌‌‌‌كتاب الحظر والإباحة، ج:6، ص:423، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144508102329

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں