بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کے لیے قبرستان جانے کا حکم


سوال

1: عورت کو قبرستان میں جانے کی اجازت کس عمر تک ہے؟

2: اور جانا چاہیے یا نہیں جانا چاہیے؟

جواب

1: صورتِ مسئولہ میں نوجوان خواتین کے لیے قبرستان جانا مکروہ ہے، تاہم بوڑھی خواتین کے لئے قبرستان جانے کی گنجائش ہےاگر قبرستان میں خلافِ شرع امور کا ارتکاب نہ کریں۔

2: اگر کسی بھی خاتون میں تحمّل کم ہو، اور وہ قبرستان جاکر بے صبری کی حالت میں روئے، یا کوئی بھی خلافِ شرع کام کرے، تو ایسے خواتین کے لئے(چاہے وہ نوجوان ہو یا بوڑھی ہو)  قبرستان جانا ہی جائز نہیں ہے، ایسے خواتین کا قبرستان جاناہی گناہ ہے، حدیث شریف میں بھی ایسی عورتوں(یعنی جو قبرستان میں جاکر جزع فزع اور خلاف شرع امور کا ارتکاب کرے) پر لعنت وارد ہوئی ہے، جیسے کہ مروی ہے:

"عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لعن زوارات القبور. رواه أحمد والترمذي وابن ماجه وقال الترمذي هذا حديث حسن صحيح

وقال: قد رأى بعض أهل العلم أن هذا كان قبل أن يرخص النبي في زيارة القبور فلما رخص دخل في رخصته الرجال والنساء. وقال بعضهم: إنما كره زيارة القبور للنساء لقلة صبرهن وكثرة جزعهن. تم كلامه".

(مشکاۃ المصابیح، کتاب الجنائز، باب زيارة القبور، رقم الحدیث:1770، ج:1، ص:554، ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبروں پر زیادہ جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ) اور حضرت امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

نیز انھوں نے فرمایا کہ بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ یہ یعنی قبروں پر جانے والی عورتوں پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لعنت فرمانا) اس وقت تھا جب کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبروں پر جانے کی اجازت عطا فرما دی تو اس اجازت میں مرد و عورت دونوں شامل ہوگئے۔ اس کے برخلاف بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں میں صبر و تحمل کے مادہ کی کمی اور جزع و فزع یعنی رونے دھونے کی زیادت کی وجہ سے ان کے قبروں پر جانے کو ناپسند فرمایا ہے۔ (لہٰذا عورتوں کے لیے یہ ممانعت اب بھی باقی ہے) ترمذی کی بات پوری ہوئی۔ 

البتہ اگر کوئی بوڑھی عورت عبرت اور تذکرہ آخرت کے لیےبغیر کسی خلافِ شرع کام کرنے کے قبرستان جائے تو گنجائش ہے، نوجوان خاتون کے لئے کسی بھی حالت میں جانا مکروہ ہے۔

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

قوله: "وقيل تحرم على النساء" وسئل القاضي عن جواز خروج النساء إلى المقابر فقال لا تسأل عن الجواز والفساد في مثل هذا وإنما تسأل عن مقدار ما يلحقها من اللعن فيه واعلم بأنها كلما قصدت الخروج كانت في لعنة الله وملائكته وإذا خرجت تحفها الشياطين من كل جانب وإذا أتت القبور تلعنها روح الميت وإذا رجعت كانت في لعنة الله كذا في الشرح عن التتارخانية قال البدر العيني في شرح البخاري وحاصل الكلام أنها تكره للنساء بل تحرم في هذا الزمان لا سيما نساء مصر لأن خروجهن على وجه فيه فساد وفتنة اهـ وفي السراج وأما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب كما جرت به عادتهن فلا تجوز لهن الزيارة وعليه يحمل الحديث الصحيح لعن الله زائرات القبور وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين من غير ما يخالف الشرع فلا بأس به إذا كن عجائز وكره ذلك للشابات كحضورهن في المساجد للجماعات اهـ وحاصله أن محل الرخص لهن إذا كانت الزيارة على وجه ليس فيه فتنة".

(کتاب الصلوۃ، باب احکام الجنائز، فصل في زيارة القبور، ص:620، ط:دارالکتب العلمیّۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101500

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں