بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے لیے فیشن بال کی کٹنگ کرنے کا حکم


سوال

عورت کو   شوہر کے لئے زیب و زینت اختیار کرنے کے لئے کس حد تک بال کٹوانے کی گنجائش ہے؟ کیا مروجہ لیر کٹنگ کرانا درست ہے؟ جس میں سامنے کے بال تھوڑی تک ہوں، پھر کچھ بال کندھے تک ،پھر باقی بال کمر تک لمبے ہی رکھے جائیں،جب  کہ اس طرح کٹنگ کرانے کا مقصد محض شوہر کے سامنے خوبصورت لگنا ہے۔

جواب

 بیوی پر شوہر کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے لیے شرعی حدود میں رہتے ہوئےہرجائز زیب وزینت اختیار کرے، اس کے لیے بناؤ سنگھارکرے ،البتہ ایسابناؤ سنگھارکرناجس کی شرعاً اجازت نہیں ہویا بے دین عورتوں کا شعار ہو،  اس کا اختیارکرنا چاہے شوہر ہی کے لیے کیوں نہ ہو،شرعاً درست نہیں ہے۔

خواتین کےلیے بلاعذربال کاٹنے کی اجازت نہیں ہے،البتہ اگر کوئی شرعی عذر ہو مثلاً : علاج کی غرض سے بال کٹوانے ہوں یابال اتنے طویل ہوجائیں کہ سرین سے بھی نیچے  ہو جائیں اور عیب دار معلوم ہوں تو فقط زائد بالوں کاکاٹناجائز ہے؛لہذا صرف خاوند کی خوشی کےلیے لیئرکٹنگ کروانا،"جس کی  ہیئیت سائلہ نے سوال میں لکھی ہے"جائزنہیں ہے۔

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصا بیح میں ہے:

"(وعنه) : أي عن ابن عمر (قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - (‌من ‌تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير. قال الطيبي: هذا عام في الخلق والخلق والشعار."

(کتاب اللباس،ج:7،ص:2782،رقم:4373،ط:دارالفکر)

الموسوعۃالفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"يستحب لكل من الزوجين أن يتزين للآخر؛ لقوله تعالى: {وعاشروهن بالمعروف} وقوله تعالى: {ولهن مثل الذي عليهن بالمعروف} فالمعاشرة بالمعروف حق لكل منهما على الآخر، ومن المعروف أن يتزين كل منهما للآخر، فكما يحب الزوج أن تتزين له زوجته، كذلك الحال بالنسبة لها تحب أن يتزين لها.قال أبو زيد: تتقون الله فيهن، كما عليهن أن يتقين الله فيكم. وقال ابن عباس رضي الله عنهما: إني لأحب أن أتزين للمرأة، كما أحب أن تتزين لي، لأن الله تعالى يقول: {ولهن مثل الذي عليهن بالمعروف} ، وحق الزوج عليها أعظم درجة من حقها؛ لقوله تعالى: {وللرجال عليهن درجة}  .وكان محمد بن الحسن يلبس الثياب النفيسة، ويقول: إن لي نساء وجواري، فأزين نفسي كي لا ينظرن إلى غيري.وقال أبو يوسف: يعجبني أن تتزين لي امرأتي، كما يعجبها أن أتزين لها."

(‌‌تزين كل من الزوجين للآخر،ج:11،ص:270/ 271،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفيه: قطعت شعر رأسها أثمت ولعنت زاد في البزازية وإن بإذن الزوج لأنه لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق، ولذا يحرم على الرجل قطع لحيته، والمعنى المؤثر التشبه بالرجال.

وفی الردتحتہ:

(قوله لا طاعة لمخلوق إلخ) رواه أحمد والحاكم عن عمران بن حصين اهـ جراحي (قوله والمعنى المؤثر) أي العلة المؤثرة في إثمها التشبه بالرجال فإنه لا يجوز كالتشبه بالنساء حتى قال في المجتبى رامزا: يكره غزل الرجل على هيئة غزل النساء."

(کتاب الحظروالاباحۃ،ج:6،ص:407،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100755

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں