بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کی عدت کی مقدار اور حکم


سوال

عورت کی عدت کی مدت کتنی ہوتی ہے ؟ چار ماہ دس دن سے کم چالیس دن کی عدت ہوتی ہے کیا ؟

جواب

واضح رہے کہ مطلقہ (طلاق شدہ)عورت اگر شادی شدہ ہو اور نکاح کے بعد زوجین کے درمیان خلوتِ صحیحہ یا ہمبستری ہوگئی ہو تو اس مطلقہ عورت کواگر حیض (ماہواری)آتا ہوتو اس کی عدت  تین حیض(ماہواری) ہے، اور  اس کا دورانیہ عورتوں کی عادت کے اختلاف کی وجہ سے کم وبیش ہوسکتا ہے، اور جس عورت کو کم عمری یا عمر کی زیادتی یا بیماری کی وجہ سے حیض (ماہواری) نہ آتا ہوتو اس کی عدت تین ماہ ہے، اور جس عورت کا شوہر وفات پاجائےاگر چاند کی پہلی تاریخ کو انتقال ہوا ہوتواس کی عدت چار ماہ دس دن ہےاور اگر چاند کی دوسری تاریخ کے بعد ہوا تو اس کی عدت ایک سو تیس (130)دن ہے،اوراگر عورت حاملہ ہو تو دونوں صورتوں (طلاق اور وفات )میں عدت وضع حمل (بچے کی ولادت)ہے،تاہم چالیس دن  کی کوئی عدت  شریعت میں  مقرر نہیں ہے ، البتہ طلاق یا شوہر کی  وفات کے فوراً بعد حاملہ  عورت کےبچے کی ولادت ہوجائے تو اس طرح کم مدت میں بھی عدت ختم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح  طلاق کی صورت میں حیض والی عورت کی عدت امکانی طور پر  چالیس دن ہوسکتی ہے، وہ اس طور پر کہ طہر میں طلاق دی اور اس کے فورًا بعد حیض شروع ہوگیا اور تین دن حیض رہا، پھر پندرہ دن پاکی کے رہے اور پھر تین دن حیض، پھر پندرہ دن پاکی اور پھر تین دن حیض رہ کر ختم ہوگیا تو تین ماہواریاں 39 یا 40 دن میں گزرنے کا امکان ہے، تاہم ایسا شاذ و نادر ہوسکتا ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وإن كانت الفرقة في بعض الشهر...قال أبو حنيفة يعتبر بالأيام فتعتد من الطلاق، وأخواته تسعين يوما، ومن الوفاة مائة، وثلاثين يوما."

(كتاب الطلاق، ‌‌فصل في بيان مقادير العدة وما تنقضي به، ج:3، ص:310، ط: دار إحياءالتراث العربي بيروت)

الجوهرة النيرية میں ہے:

"ثم العدة بالشهور في الطلاق والوفاة إذا اتفقا في غرة الشهر اعتبرت الشهور بالأهلة إجماعا وإن نقصت في العدد وإن حصل ذلك في بعض الشهر فعند أبي حنيفة يعتبر بالأيام فتعتد بالطلاق بتسعين يوما وفي ‌الوفاة بمائة وثلاثين يوما."

(‌‌كتاب العدد، ج:2، ص:73، ط: المطبعة الخيرية)

فتاوٰ ی عالمگیریہ میں ہے:

"عدة الحرة في الوفاة أربعة أشهر وعشرة أيام سواء كانت مدخولاً بها أو لا ... حاضت في هذه المدة أو لم تحض ولم يظهر حبلها، كذا في فتح القدير. هذه العدة لاتجب إلا في نكاح صحيح، كذا في السراج الوهاج. المعتبر عشر ليال وعشرة أيام عند الجمهور، كذا في معراج الدراية."

(کتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدة، ج:1، ص:529، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زنا ودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع جواهر الفتاوى (وضع) جميع (حملها)."

(كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص:511، ط: سعید)

وفيه ايضاً:

"(وهي في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيا (أو فسخ بجميع أسبابه)....(بعد الدخول حقيقة، أو حكما) أسقطه في الشرح، وجزم بأن قوله الآتي " إن وطئت " راجع للجميع (ثلاث حيض كوامل) لعدم تجزي الحيضة، فالأولى لتعرف براءة الرحم، والثانية لحرمة النكاح، والثالثة لفضيلة الحرية...(و) العدة (في) حق (من لم تحض) حرة أم أم ولد (لصغر) بأن لم تبلغ تسعا (أو كبر).....(ثلاثة أشهر) بالأهلة لو في الغرة وإلا فبالأيام بحر وغيره (إن وطئت) في الكل ولو حكما كالخلوة ولو فاسدة كما مر...(و) العدة (للموت أربعة أشهر) بالأهلة لو في الغرة كما مر (وعشر) من الأيام بشرط بقاء النكاح صحيحا إلى الموت (مطلقا) وطئت أو لا ولو صغيرة، أو كتابية تحت مسلم ولو عبدا فلم يخرج عنها إلا الحامل....(قوله: فلم يخرج عنها إلا الحامل) فإن عدتها للموت وضع الحمل كما في البحر، وهذا إذا مات عنها وهي حامل، أما لو حبلت في العدة بعد موته فلا تتغير في الصحيح."

(كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص:504-510، ط: سعيد)

تحفة الفقہاء میں ہے:

"وأما عدة الطلاق فثلاثة قروء في حق ذوات الأقراء إذا كانت حرة .....وأما في حق الحامل فعدتها وضع الحمل لا خلاف في المطلقة لظاهر قوله: {وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن ."

(تحفة الفقهاء: كتاب الطلاق، باب العدة،ج:2، ص:244، ط: دار الكتب العلمية،بيروت )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101733

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں