بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے پاس چالیس لاکھ کی پراپرٹی ہونے سے حج فرض ہوگا یا نہیں؟


سوال

ایک عورت جس کی ملکیت میں چالیس لاکھ مالیت کی پراپرٹی ہے، اس کے تین چھوٹے بچے ہیں، جن کی دیکھ بھال اس کی ذمہ داری ہے، محرم مردوں میں صرف اس کا شوہر ہے. کیا اس پر فوراً حج کی ادائیگی ضروری ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں حاجاتِ اصلیہ یعنی زندگی کی بنیادی ضروریات مثلاً: مکان، گھریلو سامان اور  دیگر پراپرٹی وغیرہ  ان چیزوں  کی مالیت کا حج کی فرضیت میں  اعتبار نہیں ہوگا،البتہ مذکورہ عورت  کی ملکیت میں اگر حاجاتِ اصلیہ کے علاوہ نقد رقم یا سونا چاندی  یا وغیرہ کی صورت میں اتنی مالیت موجود ہے، جس سے حج کے آنے جانے، رہائش اور کھانے پینے اور بوقتِ ضرورت اپنے شوہر  کا خرچہ باآسانی نکل سکتا ہے تو اس پر حج فرض ہے، لہذا جتنی جلدی ہوسکے اس فرض کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہیے، نیزعورت کا اپنے شوہر یا محرم مرد کے بغیر حج پر جانا جائز نہیں، لہذا جب تک عورت کے ساتھ حج پر جانے کے لیے ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی میسر نہ ہو شوہر  يا محرم تو میسر ہو، لیکن عورت اپنے خرچہ کے ساتھ ساتھ اس کے خرچہ کی استطاعت نہ رکھتی ہو تو عورت پر حج فرض کی ادائیگی لازم نہیں ہوگی۔

یاد رہے کہ میاں بیوی چاہے ساتھ ہوں یا ان کے درمیان جدائی ہوگئی ہو، بہر صورت نابالغ بچوں کے نفقہ کی ذمہ داری شرعاً والد پر ہی ہے، اور بلوغت کے بعد جب تک اولاد کمانے کے قابل نہ ہو ان کے نفقہ کی ذمہ داری شرعاً  والد پر ہی ہوتی ہے۔

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها القدرة على الزاد والراحلة)...وتفسير ملك الزاد والراحلة أن يكون له مال فاضل عن حاجته، وهو ما سوى مسكنه ولبسه وخدمه، وأثاث بيته قدر ما يبلغه إلى مكة ذاهبا وجائيا راكبا لا ماشيا وسوى ما يقضي به ديونه ويمسك لنفقة عياله، ومرمة مسكنه ونحوه إلى وقت انصرافه كذا في محيط السرخسي"

(الباب الأول في تفسیر الحج وفرضیته ووقته: ج:1، ص:217، ط: حقانیة)

ہدایہ میں ہے:

" الحج واجب علی الأحرار البالغین العقلاء الأصحاء إذا قدروا على الزاد والراحلة فاضلاً عن المسکن، وما لا بد منه، وعن نفقة عیاله إلى حین عوده، وكان الطریق آمناً ووصفه الوجوب."

(كتاب الحج:ج:1، ص:249  ط: مكتبة رحمانية)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(و) مع (زوج أو محرم) ولو عبدا أو ذميا أو برضاع (بالغ) قيد لهما كما في النهر بحثا (عاقل والمراهق كبالغ) جوهرة (غير مجوسي ولا فاسق) لعدم حفظهما (مع) وجوب النفقة لمحرمها (عليها) لأنه محبوس (عليها)"

(کتاب الحج:ج:2، ص:462، ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے: 

"‌وشرائطه ‌ثلاثة: شرائط وجوب، وشرائط وجوب أداء، وشرائط صحة، فالأولى ثمانية على الأصح: الإسلام، والعقل، والبلوغ، والحرية، والوقت، والقدرة على الزاد، والقدرة على الراحلة، والعلم بكون الحج فرضا، وقد ذكر المصنف منها ستة وترك الأول والأخير، والعذر له كغيره أنهما شرطان لكل عبادة وقد يقال: كذلك العقل والبلوغ والعلم المذكور يثبت لمن في دار الإسلام بمجرد الوجود فيها سواء علم بالفرضية أو لم يعلم، ولا فرق في ذلك بين أن يكون نشأ على الإسلام فيها أو لا، فيكون ذلك علما حكميا، ولمن في دار الحرب بإخبار رجلين أو رجل وامرأتين، ولو مستورين أو واحد عدل وعندهما لا تشترط العدالة والبلوغ والحرية فيه وفي نظائره الخمسة كما عرف أصولا وفروعا، والثانية خمسة على الأصح: صحة البدن، وزوال الموانع الحسية عن الذهاب إلى الحج، وأمن الطريق، وعدم قيام العدة في حق المرأة، وخروج الزوج أو المحرم معها، والثالثة أعني شرائط الصحة أربعة: الإحرام بالحج، والوقت المخصوص، والمكان المخصوص، والإسلام"

(کتاب الحج،ج:2، ص: 538،539، ط:دار الکتب العلمیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة".

(الفصل الرابع في نفقة الأولاد:ج:1، ص:560،  ط: رشيدية)

و فيه أيضاً:

"الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب و لم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا أو يؤاجرهم و ينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، و أما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل أو خدمة، كذا في الخلاصة".

(الفصل الرابع في نفقة الأولاد: ج:1، ص:562، ، ط: رشیدیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101301

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں