بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا شادی کی تقریبات میں جانے کا حکم


سوال

شادی سے پہلے میں ایسی شادیوں میں شرکت نہیں کرتی تھی جن میں غیر شرعی رسومات ہوں، لیکن اب شادی کے بعد مجھے ہر شادی مین جانا پڑتا ہے، میری شادی کو بیس سال ہو گئے ہیں، مہندیوں میں بھی جانا پڑتا ہے، کیا میرا ایسی شادیوں میں جانا جائز ہے یا شریعت میں منع ہے؟ اگر میں نہ جاؤں تو سننےکو ملتا ہے کہ تمہیں جانا چاہیے ورنہ دنیا سے بالکل کٹ جاؤ گی، اور کل کو تمہارے بچوں کی شادیوں میں  کوئی نہیں آئے گا۔

شادی تو سنت ہے اور میں نقاب میں بیٹھوں گی، اب میری راہ نمائی فرمائیں کہ میں کیا کروں؟

جواب

شادی بیاہ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ و سلم کی سنتِ مبارکہ ہے، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جا بجا اس کی ترغیب دی ہے، اور رشتہ داروں کی شادی بیاہ میں شرکت کو مستحسن قرار دیا گیا ہے، صحیح بخاری شریف کی روایت ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ خواتین اور بچوں کو شادی بیاہ سے واپس آتے ہوئے دیکھا تو فرط مسرت کے باعث سیدھا اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا’’انتم من أحب الناس إلي‘‘(تم میرے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں سے  ہو) اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے علامہ بدر الدین عینی نے خواتین اور بچوں کا شادی بیاہ میں شرکت کرنے  کو مستحسن قرار دیا ہے۔

تاہم آج کل شادی کی تقریبات  میں بے تحاشا قبائح و خرافات پائے جانے کی بنا پر  ایسی تقریبات میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے، حضرت اقدس تھانوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’بہشتی زیور‘‘ میں  102 ایسی  خرابیاں بیان کی ہیں جن کی بنا پر ان تقریبات میں شرکت ناجائز ہے، منجملہ چند ایک یہ ہیں، نمود ونمائش، دکھلاوا و ریاکاری، شادی بیاہ میں شرکت کے لیے نئے کپڑے وغیرہ کے لیے شوہر سے من مرضی مافوق الاستطاعہ مطالبات، فضول خرچی و اسراف، شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جانا، غیر ضروری مباح امور کو  واجبات کی طرح لازم سمجھ کر رو بعمل لانا، سب سے بڑی لعنت مرد و زن کا اختلاط ہے  جو کئی محرمات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، ڈھول باجے اور ناچ گانے جن کے بارے میں حدیث شریف میں آتا ہے کہ گانا دل میں نفاق کو یوں پیدا کرتا ہے جیسے پانی کھیتی کو پیدا کرتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ کےلیے جائز نہیں کہ شادی کی مروجہ تقریبات میں شرکت کرے، الا یہ کہ کہیں رشتہ داروں کے ہاں سنجیدہ تقریب ہو جس میں شرعی قباحتیں نہ پائی جاتی ہوں تو سائلہ شوہر کی اجازت سے شرکت کرنے  کی مجاز ہے، لیکن غیر محرم کی شادی تقریب میں نہ جانا جائز ہے اور نہ ہی شوہر کےلیے جانے کی جازت دینا جائز ہے، اگر شوہر اجازت دے تو تقریب میں جانے پر دونوں گنہگار ہوں گے، نیز شوہر کی اجازت کے بغیر کسی بھی تقریب میں جانا جائز نہیں ہے۔

سائلہ کا یہ کہنا کہ شرکت نہ کرنے کی صورت میں سننے کو ملتا ہے،لوگ باتیں کرتے ہیں، تو یاد رہے کہ دین پر عمل کرنے میں ایسی دشواریاں پیش آتی ہیں، حالات کا مقابلہ ہی تو ہے جو اس دور میں دین پر عمل پیرا ہونے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، لہذا سائلہ کو چاہیے کہ لوگوں کی باتوں کی وجہ سے اپنی عاقبت کو خطرے میں نہ ڈالے، بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئےحالات کا مقابلہ کرے، اور شریعت کے احکام کے سامنے سرِ تسلیم خم کرے، اس پر وہ عند اللہ ماجور بھی ہوگی اور اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے راستے ہموار فرمائیں گے۔

عمدہ القاری میں ہے:

"‌‌(باب ذهاب النساء والصبيان إلى العرس)أي: هذا باب في بيان جواز ذهاب النساء والصبيان إلى وليمة العرس، وعقد هذه الترجمة لئلا يتخيل عدم جواز ذلك.

عن أنس بن مالك، رضي الله عنه، قال: أبصر النبي صلى الله عليه وسلم نساء وصبيانا مقبلين من عرس فقام ممتنا فقال: اللهم! أنتم ‌من ‌أحب ‌الناس إلي.

قوله: (فقام ممتنا) بضم الميم الأولى وسكون الثانية المثناة وفتح التاء المثناة من فوق وتشديد النون أي: قام قياما قويا مأخوذ من المتنة بضم الميم وهو القوة، وحاصل المعنى: قام قياما مسرعا مشتدا في ذلك فرحا بهم.

قوله: (اللهم) ذكره تبركا، وكأنه استشهد بالله في ذلك تأكيدا لصدقه, وفي التوضيح وفيه: استحسان شهود النساء والصبيان للأعراس لأنها شهادة لهم علينا ومبالغة في الإعلان بالنكاح."

(باب ذہاب النساء و الصبیان الی العرس، ج:20، ص:162، ط:دار احیاء التراث العربی)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - «أنه خرج يوما إلى مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجد معاذ بن جبل قاعدا عند قبر النبي - صلى الله عليه وسلم - يبكي، فقال: ما يبكيك؟ قال: يبكيني شيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم  يقول: إن ‌يسير ‌الرياء ‌شرك.

(يقول:  إن يسير الرياء ) أي: قليله ( شرك ) ، أي: عظيم، أو نوع من الشرك، يعني وهو في غاية من الخفاء، لأنه أدق من دبيب النملة السوداء على الصخرة الصماء في الليلة الظلماء، وقلما يسلم منه الأقوياء، فكيف الضعفاء؟"

(کتاب الاداب، باب الریاء و السمعہ، ج:8، ص:3339، رقم:5328، ط:دار الفکر بیروت)

عمدہ القاری میں ہے:

"سفيان عن سلمة قال: سمعت جندبا يقول: قال النبي صلى الله عليه وسلم ولم أسمع أحدا يقول: قال النبي صلى الله عليه وسلم غيره فدنوت منه فسمعته يقول: قال النبي صلى الله عليه وسلم: (من سمع سمع الله به، ومن يرائي يرائي الله به).

قوله: (من سمع) بتشديد الميم من التسميع وهو التشهير وإزالة الخمول بنشر الذكر، وقال الخطابي: أي عمل عملا على غير إخلاص، وإنما يريد أن يراه الناس ويسمعوه جوزي على ذلك بأن يشهره الله تعالى ويفضحه ويظهر ما كان يبطنه، وقيل: إن قصد بعمله الجاه والمنزلة عند الناس ولم يرد به وجه الله تعالى فإن الله يجعله حديثا عند الناس الذين أراد نيل المنزلة عندهم، ولا ثواب له في الآخرة. قوله: (ومن يرائي) بضم الياء وبالمد وكسر الهمزة والثانية مثلها وثبتت الياء في آخر كل منهما للإشباع أي: من يرائي بعمله الناس (يرائي الله به) أي يطلعهم على أنه فعل ذلك لهم لا لوجهه فاستحق سخط الله عليه."

(کتاب الرقاق، باب الریاء و السمعہ، ج:23، ص:87، ط:دار احیاء التراث العربی)

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"والإسراف هو مجاوزة حد الاستواء، فتارة يكون بمجاوزة الحلال إلى الحرام وتارة يكون بمجاوزة الحد في الإنفاق فيكون ممن قال الله تعالى: {إن المبذرين كانوا ‌إخوان ‌الشياطين}  والإسراف وضده من الإقتار مذمومان، والاستواء هو التوسط، ولذلك قيل دين الله بين المقصور والغالي."

(سوره الانعام، باب النهي عن مجالسه الظالمين، ج:3، ص:44، ط:دار الکتب العلمیه بیروت لبنان)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان حكم النكاح....ومنها ملك الحبس والقيد، وهو صيرورتها ممنوعة عن الخروج والبروز لقوله تعالى {أسكنوهن} [الطلاق: 6] ، والأمر بالإسكان نهي عن الخروج والبروز والإخراج إذ الأمر بالفعل نهي عن ضده، وقوله عز وجل {وقرن في بيوتكن} [الأحزاب: 33] ، وقوله عز وجل {لا تخرجوهن من بيوتهن ولا يخرجن} [الطلاق: 1] ؛ ولأنها لو لم تكن ممنوعة عن الخروج والبروز لاختل السكن والنسب؛ لأن ذلك مما يريب الزوج، ويحمله على نفي النسب."

(کتاب النکاح، فصل فی بیان حکم النکاح..منہا ملک الحبس والقید، ج:2، ص:331، ط:دار الکتب العلمیہ)

فتح القدیر میں ہے:

"وما عدا ذلك ‌من ‌زيارة ‌الأجانب وعيادتهم والوليمة لا يأذن لها ولا تخرج ولو أذن وخرجت كانا عاصيين."

(کتاب النکاح، باب فی النفقہ، فصل علی الزوج ان یسکنہا۔۔، ج:4، ص:398، ط:بولاق مصر)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"‌من ‌أصر ‌على ‌أمر مندوب وجعله عزماً ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال."

(کتاب الصلاہ، باب الدعاء فی التشہد، الفصل لاول، ج:3، ص:301، رقم :952، ط:ادارہ البحوث بنارس الہند)

الموسوعہ الفقہیہ میں ہے:

"الاختلاط إذا كان فيه: الخلوة بالأجنبية، والنظر بشهوة إليها، و  تبذل المرأة وعدم احتشامها،  عبث ولهو وملامسة للأبدان كالاختلاط في الأفراح والموالد والأعياد، فالاختلاط الذي يكون فيه مثل هذه الأمور حرام، لمخالفته لقواعد الشريعة، قال تعالى: {قل للمؤمنين يغضوا من أبصارهم} . . . {وقل للمؤمنات يغضضن من أبصارهن} ، وقال تعالى عن النساء: {ولا يبدين زينتهن} وقال: {إذا سألتموهن متاعا فاسألوهن من وراء حجاب} ،  ويقول النبي صلى الله عليه وسلم: لا يخلون رجل بامرأة فإن ثالثهما الشيطان ،  وقال صلى الله عليه وسلم لأسماء بنت أبي بكر يا أسماء إن المرأة إذا بلغت المحيض لم يصلح أن يرى منها إلا هذا وهذا وأشار إلى وجهه وكفيه ، كذلك اتفق الفقهاء على حرمة لمس الأجنبية، إلا إذا كانت عجوزا لا تشتهى فلا بأس بالمصافحة. ويقول ابن فرحون: في الأعراس التي يمتزج فيها الرجال والنساء، لا تقبل شهادة بعضهم لبعض إذا كان فيه ما حرمه الشارع؛ لأن بحضورهن هذه المواضع تسقط عدالتهن."

(مادہ:اختلاط، اختلاط الرجال بالنساء، ج:2، ص:290، ط:دار السلاسل)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن جابر - رضي الله عنه - قال: «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الغناء ‌ينبت ‌النفاق في القلب كما ينبت الماء الزرع» . رواه البيهقي في (شعب الإيمان).

الغناء) : بكسر الغين ممدودا أي: التغني (‌ينبت ‌النفاق في القلب كما ينبت الماء الزرع) : يعني الغناء سبب النفاق ومؤد إليه، فأصله وشعبته كما قال:  «البذاء والبيان شعبتان من النفاق» ،  وفي شرح السنة قيل: الغناء رقية الزنا....وقال النووي في الروضة: غناء الإنسان بمجرد صوته مكروه وسماعه مكروه، وإن كان سماعه من الأجنبية كان أشد كراهة، والغناء بآلات مطربة هو من شعار شاربي الخمر كالعود والطنبور والصنج والمعازف وسائر الأوتار حرام، وكذا سماعه حرام."

(کتاب الاداب، باب البیان و الشعر، ج:7، ص:3024، رقم:4810، ط:دار الفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101140

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں