بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا محرم کے بغیر حج یا عمرہ کرنے کا حکم


سوال

میں اپنی اور اپنی بیٹی کی واحد کفیل ہوں شوہر اور والدین اب اس دنیا میں نہیں رہے، گزارش یہ ہے کہ میں تہہ دل سے حج یا عمرے کا فریضہ ادا کرنا چاہتی ہوں ،مگر میرے محرم بھائی اور ماموں  اپنی ذاتی مصروفیات کی بنا  پر میرے ساتھ جانے سے قاصر ہیں ،لہذا میں آپ سے التماس کرتی ہوں کہ اس حوالے سے میری راہ نمائی فرمائیں، اور ایسی صورتِ حال میں جب محرم کی موجودگی نہ ہو  اور عورت حج یا عمرے کے فضیلت حاصل کرنا چاہے،تو اس میں  جن شرعی احکام کا اطلاق ہوتا ہے،  ان کی تفصیل بیان فرما دیں!  یہ میری دیرینہ آرزوہے جو کئی  سالوں سے میرے دل میں ہے، اور اب جب کہ حکومتی ادارے نے بھی پالیسی میں تبدیلی کر کے محرم کی موجودگی کی پابندی ہٹا دی ہے ،میں جاننا چاہتی ہو کہ اس سلسلے میں شریعت کی کیا احکام ہیں؟  جس کے لیے میں آپ کے ممنون رہوں گی!

جواب

واضح رہے کہ حج اور عمرے کا مقصد اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنا ہے، اللہ تعالی کی رضامندی   اللہ کی فرمانبرداری کر کے ہی حاصل کی جا سکتی ہے، اور عورت کے لیے سفر کے معاملے میں اللہ کا حکم یہ ہے کہ عورت بغیر محرم کے سفرکے لیے گھر سے نہ نکلے، اپنی خواہش کو اللہ تعالی کے حکم کی پابندی کی خاطر دبانا ایمان میں ترقی کا ذریعہ ہوتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ حج یا عمرے کے لیے اکیلےسفر نہ کرے، اپنے بھائی اور ماموں کو ترغیب دیتی  رہے،  اللہ تعالی سے دعا بھی کرتی رہے، جب وہ تیار ہو جائیں تو ان کے ساتھ حج و عمرہ کیا جائے؛ کیوں کہ جب تک محرم کا انتظام نہ ہو  اللہ تعالی نے عورت کے لیے حج پر جانا لازم نہیں کیا ہے ۔

صحیح مسلم ہے:

"عن عبد الله بن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر، تسافر مسيرة ثلاث ليال، إلا ومعها ذو محرم»."

(کتاب الحج، باب سفر المرأة مع محرم إلى حج وغيره، ج:2، ص:975، ط: دار إحياء التراث العربي)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لایَخْلُوَنَّ رجلٌ بامرأۃٍ ولاتسافر امرأۃٌ إلا ومعها محرم، فقال رجل: یا رسول اللّٰہ! اکتبتت في غزوۃ کذا کذا وخرجت امرأتي حاجة، فقال: اذهب فاحجج مع امرأتك."                  

          ( كتاب المناسك ، الفصل الاول ، ج:2، ص:773، ط: المکتب الاسلامی)

فتاوی  شامی میں ہے :

"والنوع الثاني: شروط الأداء وهي التي إن وجدت بتمامها مع شروط الوجوب، وجب أداؤه بنفسه، وإن فقد بعضها مع تحقق شروط الوجوب، فلايجب الأداء بل عليه الإحجاج أو الإيصاء عند الموت، وهي خمسة: سلامة البدن، وأمن الطريق وعدم الحبس، والمحرم أو الزوج للمرأة وعدم العدة لها."

 (‌‌كتاب الحج، ج:2، ص: 458، ط: سعید )

وفيه أيضاً:

"ولو عجوزا) أي لإطلاق النصوص بحر.

قال الشاعر: ‌لكل ‌ساقطة ‌في ‌الحي ‌لاقطة … وكل كاسدة يوما لها سوق."

 (‌‌كتاب الحج، ج:2، ص: 464، ط: سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505100779

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں