میری سابقہ شادی 2014 میں ہوئی اور یہ شادی ڈھائی سال تک رہی، اس عرصے میں میرے سابقہ شوہر اور ان کے گھر والوں کی طرف سے میرے میکے آنے جانے پر پابندی تھی اور اس خاوند سے ایک بچی بھی ہے جب میری بچی 15 ماہ کی تھی، تو اس وقت میری ساس نے سسر اور خاوند کے سامنے بلا کر کہا کہ: تم اپنے میکے چلی جاؤ اور سونے کا سیٹ میرے پاس رکھوادو، میں نے سیٹ ان کے حوالہ کردیا، کچھ دنوں بعد انہوں نے مجھے طلاق کے کاغذات بھجوا دیے ، جب میری والدہ اور بھائی سسرال چھوڑنے گئے تو بھائی نے کہا کہ: جب طلاق دے دی ہے، تو بچی کو اپنے پاس رکھیں، تو اس وقت بچی کے دادا یعنی میرے سسر نے کہا کہ: بچی کسی کو بھی دے دو ۔ اس کے بعد کئی دفعہ میرے بھائی میرے جہیز کے سامان کا مطالبہ کرنے گئے، لیکن انہوں نے نہیں دیا، اب میری دوسری شادی ہو چکی ہے اور بچی 6 سال کی ہے، جس کا پورا خرچ میرے بھائی نے برداشت کیا ہے اور کررہاہے ، لیکن میرے دوسرے خاوند کہتے ہیں کہ: بچی کو واپس پہلے خاوند کے پاس چھوڑ دو، ورنہ میرے پاس نہ آنا۔
اب میں بچی کو پہلے خاوند کو دے کر اپنا جہیز (سیٹ وغیرہ )لینا چاہتی ہوں، تو اس حوالہ سے شریعت کیا راہ نمائی کرتی ہے؟
واضح رہے کہ:
1)میاں بیوی کی فرقت کے بعد اگر عورت کسی دوسری جگہ ایسے شخص کے ساتھ نکاح کرتی ہے جو اولاد کے محرم رشتہ داروں میں سے نہ ہو تو ایسی صورت میں عورت کا اولاد سے حق پرورش شرعًا ساقط ہوجاتاہے ۔
2) وہ سامان وغیرہ جو والد اپنی بیٹی کو شادی کے وقت جہیز کے طور پر دے کر اسے مالک بناتے ہیں وہ تمام سامان وغیرہ عورت کی ملکیت شمار ہوگی۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں:
1)چوں کہ سائلہ نے دوسری شادی ایسے شخص کے ساتھ کی ہے جو بچی کے رشتہ داروں میں سے نہیں ہے، اس وجہ سے اس بچی پر اس کا کوئی حق پرورش نہیں تھا اور جو کیا اس میں وہ احسان کرنے والا شمار ہوگا، اب پرورش کا حق بچی کی نانی کو ہے، اگر نانی نہیں کرتی تو دادی کا حق ہے، اس صورت میں بچی کو والد کے حوالہ کرنا درست ہے۔
2) اسی طرح شوہر پر لازم ہے کہ وہ سامان (سیٹ وغیرہ) جو سائلہ کو جہیز کے طور پر والد کی طرف سے ملاہے اسے واپس کرے۔
الدر المختار میں ہے:
"(تثبت للأم)النسبية (ولو) كتابية... (بعد الفرقة) (إلا أن تكون مرتدة) فحتى تسلم لأنها تحبس... (أو غير مأمونة) .ذكره في المجتبى بأن تخرج كل وقت وتترك الولد ضائعا ... (أو متزوجة بغير محرم) الصغير (أو أبت أن تربيه مجانا و) الحال أن (الأب معسر...(على المذهب)."
[كتاب الطلاق ، باب الحضانة ، ج: 3، ص559 ، ط: سعيد]
الدر مع الرد میں ہے:
"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ..وفي الفتح: ويجبر الأب على أخذ الولد بعد استغنائه عن الأم لأن نفقته وصيانته عليه بالإجماع اهـ. وفي شرح المجمع: وإذا استغنى الغلام عن الخدمة أجبر الأب، أو الوصي أو الولي على أخذه لأنه أقدر على تأديبه وتعليمه. اهـ. وفي الخلاصة وغيرها: وإذا استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى، يقدم الأقرب فالأقرب ولا حق لابن العم في حضانة الجارية."
[كتاب الطلاق ، باب الحضانة، ج:3، ص:566، ط: سعيد]
تبیین الحقائق میں ہے:
"وفي الذخيرة جهز بنته وزوجها، ثم زعم أن الذي دفعه إليها ماله وكان على وجه العارية عندها فقالت: هو ملكي جهزتني به، أو قال الزوج ذلك بعد موتها فالقول قولهما دون الأب؛ لأن الظاهر شاهد بملك البنت إذ العادة دفع ذلك إليها بطريق الملك."
[كتاب النكاح، باب المهر، ج: 2، ص: 159، ط: بولاق مصر، القاهرة]
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144308101583
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن