بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا بلا ضرورت اسکول میں جاب کرنا


سوال

میرابیٹاعرصہ چار سال دو مہینے سے لاپتہ ہے،اس کی بیوی اور بچیاں میری کفالت میں ہیں اور میں ان کا واحد کفیل اور سربراہ ہوں۔میرابیٹااپنے دوست  کے ساتھ برابرکی شراکت داری پر اسکول چلاتا تھا، کچھ عرصہ قبل اس کے شراکت دار نے مجھ سے اس بات کی اجازت لی کہ میں اپنی بہو کو  ہفتہ میں صرف تین دن اسکول کی  تربیہ کلاس لینے کی اجازت دے دوں ،میں نے اسے اجازت دے دی ۔اس کے بعد کرونا کی وجہ سے اسکول بند ہوئے ،لیکن میری بہو اسکول جاتی رہی،اسی اثنا میں وہاں کی پرنسپل کی شادی ہوگئی ،اور انہوں نے اسکول کو خیر باد کہہ دیا۔میرے بیٹے کے شراکت دار نے مجھ سے اجازت لیے بغیر میری بہو کو پرنسپل بنادیا۔اب اس کے پاس میری بہو کا موبائل نمبر بھی ہے اور وہ اس سے گاہے بگاہے گفتگوبھی کرتاہے ،اسکول کے اندر مختلف میٹنگز میں تمام اساتذہ کے ساتھ اور کبھی اکیلے میں بھی گفتگو کاسلسلہ جاری رہتاہے ۔میں نے اس پر اعتراض کیا اوراپنے بیٹے کے شراکت دار سے کہا کہ آپ میری بہو کو سکول سے فارغ کردیں، اس نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ بہو کو سسر کی اجازت کی ضرورت ہی نہیں ہے ،اس سلسلے میں اس نے میری بہو کو بھی ورغلایا ہے ،اس کی کیا نیت ہے یہ تو بہر حال اللہ بہتر جانتاہے ۔  میں نے اپنی بہو سے اسکول چھوڑنے کے لیے کہا تو اس نے بھی صاف انکار کردیا اور میرے ساتھ بدتمیزی سے پیش آئی۔

یہاں میں عرض کرتا چلوں کہ یہ اسکول دنیاوی اور اخروی تعلیم دیتاہے اوراس میں مخلوط تعلیم نہیں دی جاتی ۔ہرماہ جتنی تنخواہ میرے بیٹے کاشراکت دار لیتاہے،اتنی ہی ہر مہینے ہمیں بھی ملتی ہے ۔اور اس میں سے مبلغ بیس ہزار(20000 )روپے میں اپنی بہو کو دیتاہوں ،اس کو اسکول سے کوئی تنخواہ نہیں ملتی۔اب پوچھنایہ ہے کہ :

میری بہو کو باہر جانے کے لیے( خواہ اسکول کے لیے ہی کیوں نہ ہو) میری اجازت کی ضرورت ہے یا نہیں ؟

واضح رہے کہ ہمارا گھرانہ شرعی پردہ کرتاہے ،نیزمیں اپنی بہو اور اس کے بچوں کا واحدسربراہ اور  کفیل ہوں اور میں اس کے اسکول میں پڑھانے پر  بہت سے تحفظا ت رکھتاہوں۔

وضاحت: میری بہو کےبالغ بھائی ہیں، البتہ ان کے والد انتقال کرچکے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ  شریعتِ مطہرہ  نے  عورت کو پردہ میں رہنے کی بہت تاکید کی ہے اور اس کےبلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے کو سخت نا پسند کیا ہے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے معاملہ میں بھی یہ ترغیب دی کہ عورتیں اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھیں ۔

البتہ اگر کسی خاتون کو شدید مجبوری لاحق ہو اور کوئی دوسرا کمانے والا نہ ہوتو ایسی صورت میں  شریعت نے عورت کو گھر سے نکلنے کی گنجائش دی ہے، لیکن اس میں بھی یہ ضروری ہے کہ عورت مکمل پردے کے ساتھ گھر سے نکلے ،ایسی ملازمت اختیار نہ کرے جس میں کسی اجنبی مرد کے ساتھ تنہائی حاصل ہوتی ہو،کسی اجنبی مرد سے بات کرنے کی ضرورت پیش  آجائے تو دُرشت لہجے میں بات  کرے ،نرم لہجہ نہ رکھے کہ کسی کو اس کی طرف رغبت ہو۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں   اگر سائل اپنی بہو اور پوتوں کی کفالت کررہا ہے اور عورت کو اپنے نان نفقہ کےلیے نوکری کی ضرورت نہیں ہے، تو بلا ضرورت عورت  کا نوکری کے لیے باہر جانا اوراجنبی مردوں کے ساتھ تعلقات رکھنا جائز نہیں،شوہر کی غیر موجودگی میں خاتون کے اصل ولی اس کے بھائی ہیں، تاہم جب وہ سسر کے ساتھ ان کےگھر میں رہائش پذیر ہےتو اخلاقًا اسے ان کی سرپرست کی حیثیت کا خیال  کرتے ہوئے باہر جانے کےلیے ان سے اجازت لینی چاہیے۔

قرآن کریم میں ہے:

{ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى } [الأحزاب: 33]

ترجمہ: اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو  (بیان القرآن)

کنز العمال میں حدیث شریف ہے:

"ليس للنساء نصيب في الخروج إلا مضطرة."

(الباب السادس في ترهيبات وترغيبات تختص بالنساء ،الفصل الأول في الترهيبات:16/ 391،ط: مؤسسة الرسالة)

فتاوی شامی میں ہے:

 (و) لها (السفر والخروج من بيت زوجها للحاجة ۔۔۔۔ فلا تخرج إلا لحق لها أو عليها

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 145)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144305100486

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں