بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت اور اس کے سوتیلے بھائی کی بیٹی کو نکاح میں جمع کرنے کا حکم


سوال

عورت اور اس کے سوتیلے بھائی (باپ شریک) کی بیٹی کو نکاح میں جمع کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جس طرح کسی عورت اور اس کے حقیقی بھائی کی بیٹی کو نکاح میں جمع کرنا جائز نہیں، اسی طرح عورت اور اس کے سوتیلے بھائی کی بیٹی کو بھی نکاح میں جمع کرنا جائز نہیں ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تنكح المرأة ‌على ‌عمتها، ولا على خالتها»"

(کتاب النکاح،  باب تحريم الجمع بين المرأة وعمتها أو خالتها في النكاح: 2 / 1028، ط: مطبعة عيسى البابي الحلبي وشركاه، القاهرة)

فتح القدیر میں ہے:

"(ولا يجمع بين امرأتين ‌لو ‌كانت ‌إحداهما ‌رجلا لم يجز له أن يتزوج بالأخرى)۔"

(کتاب النکاح، فصل فی بیان المحرمات: 3 / 217، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي)

‌‌فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(الباب الثالث في بيان المحرمات) وهي تسعة أقسام (القسم الأول المحرمات بالنسب) ...  وأما الأخوات فالأخت لأب وأم والأخت لأم وكذا بنات الأخ والأخت وإن سفلن، وأما العمات فثلاث عمة لأب وأم وعمة لأب وعمة لأم وكذا عمات أبيه وعمات أجداده وعمات أمه وعمات جداته وإن علون۔"

(کتاب النکاح،الباب الثالث في بيان المحرمات وهي تسعة أقسام، القسم الأول المحرمات بالنسب: 1 / 273،  ط: رشیدیہ)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100033

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں