بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد سے خدمت لینا


سوال

کیا اپنی  جوان بیٹی یا بیٹے سے والدین کولہے دبوا سکتے ہیں  درد کی صورت میں، اور کیا جوان بہن ، بیٹی،بھتیجی اور بھانجی کا بوسہ لے  سکتے ہیں  جب دل میں ذرہ برابر بھی کوئی شہوت والا معاملہ نہ ہو ؟

جواب

1:والدین  کی خدمت  اولاد  پرلازم ہے، خاص کرجب والدین خدمت کےمحتاج ہوں، لہذا  صورتِ  مسئولہ  میں  والد  کا اپنے بیٹوں سے  اور والدہ کا اپنی بیٹیوں سے ضرورت کےموقع پر  کولہے دبواناشرعًا درست ہے۔

2:محرمات عورتوں ماں،بہن ،پھوپھی،خالہ،بھتیجی،بھانجی سے اگرگمان غالب ہوکہ دونوں میں سے کسی کے دل میں بدخیالات پیدانہ ہوں گے یابوسہ لینے  والے بوڑھے ہوں توبوسیہ لیناجائزہے،لیکن  اجتناب بہتر ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

{وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًاوَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا}

(الاسراء23،24)

الادب المفرد میں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: سألت النبي صلى الله عليه وسلم أي العمل أحب إلى الله عز وجل؟ قال: (الصلاة على وقتها) قلت ثم أي؟ قال (ثم بر الوالدين) قلت ثم أي؟ قال (ثم الجهاد في سبيل الله)."

(باب قوله تعالى: و وصينا الأنسان بوالديه حسنًا، ص:3، ط: مكتبة المعارف للنشر و التوزيع)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وما حل نظره) مما مر من ذكر أو أنثى (حل لمسه) إذا أمن الشهوة على نفسه وعليها «لأنه عليه الصلاة و السلام كان يقبل رأس فاطمة» و قال عليه الصلاة والسلام: «من قبل رجل أمه فكأنما قبل عتبة الجنة» و إن لم يأمن ذلك أو شك، فلايحل له النظر و المس."

(كتاب الحظر و الاباحة، فصل في النظر و المس، ج:6، ص:367،ط:دار الفكر)

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144509101769

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں