بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کے درمیان ہبہ میں فرق کرنا


سوال

میرے دادا کا انتقال ہوگیاہے، میرے دادا کے پانچ بیٹے اور دوبیٹیاں ہیں۔میرے دادانے اپنی زندگی میں اپنے بیٹوں  میں سے ہرایک  بیٹے کو تین،تین ایکڑزمین علیحدہ کرکے مکمل قبضہ کے ساتھ  دی تھی، لیکن بیٹیوں کو کچھ بھی نہیں دیاتھا۔

اب دریافت یہ کرناہےکہ مذکورہ تقسیم شدہ زمین میں داد اکی بیٹیوں کاحصہ ہے یانہیں؟ اگر ہےتو ان کوکتنا دیاجائےگا؟

دوسراسوال یہ ہےکہ میرے والد اپنی تین ایکڑ  کی زمین اپنی زندگی میں اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں  تو اس کا کیاطریقہ کارہے ؟ہم دو بھائی تھے اب ایک کاانتقال ہوچکاہے اورچھ بہنیں ہیں ، والدہ بھی حیات ہے۔میرے مرحوم بھائی کے ورثاء میں بیوہ اور ایک بیٹا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے دادا کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی تمام اولاد (بیٹوں اور بیٹیوں )میں برابر برابر  زمین تقسیم کرتے،کیوں کہ زندگی میں اولاد کے درمیان جائیداد تقسیم کرنا ہبہ کہلاتاہے اور ہبہ میں تمام اولاد کے درمیان برابری کرنا ضروری  ہے،اور سائل کے دادا نے چوں کہ برابری نہیں کی، اس لیے وہ گناہ گارہے،لہٰذا سائل کے والد اور چچاؤں کوچاہیے کہ وہ  اپنی بہنوں کو بھی برابر حصہ دےدیں،ورنہ سائل کے داد ا  کامؤاخذہ ہوگا۔اس کی تلافی کا طریقہ یہ ہےکہ چوں کہ ہربیٹے کا 100فیصد میں سے14.2857حصہ بنتاتھا اور ہربیٹے نے کل جائیداد کا  20فیصد لیاہے، یوں ہرایک نے کل میں  اپنے حصے سے5.7143فیصد زیادہ لیاہے، اس لیے ہر ایک بیٹے کو چاہیے کہ کل جائیداد کی رقم لگا کر اس کا 5.7143فیصد اپنی  ہر ہر بہن کو دے، تاکہ ان کے والد کامؤاخذہ نہ ہو۔تاہم اگر سائل کے والد کے دوسرے بھائی ،بہنوں کو حصہ دینے کےلیے تیار نہ ہوں تو سائل کا والد ،دادا کی کل زمین کی موجودہ  قیمت لگا کر 100فیصد میں سے ہرایک بہن کو 5.7143 فیصد اداکرے ۔

اگر سائل کے والد  اپنی خوشی   سے زندگی  میں اپنی  اولاد کے درمیان  اپنی زمین تقسیم کرنا چاہتےہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ سائل کے والد اپنے لیے جتنا چاہے رکھ لیں، تاکہ بوقت ضرورت کا م آئے اور کسی  دسرے کا محتاج نہ ہو،بقیہ زمین میں سے اپنی بیوی کو آٹھوں حصہ دےدیں، اس کے بعد جتنی زمین باقی رہ جائے اس  کو تمام اولاد میں برابر تقسیم کردیں یعنی جتنی زمین  بیٹے کو دے  اتنی بیٹی کوبھی دے، بلاوجہ کمی زیادتی نہ کریں اور نہ ہی کسی کو محروم کریں۔بہتر یہ ہے کہ  جس بیٹے کاانتقال ہوا  ہے اس کی بیوہ اور بیٹے کو بھی  ایک بیٹے کے برابرحصہ دے۔ البتہ  جس کو زمین کا  جو حصہ دے اسے اس کاحصہ علیحدہ کرکے مالکانہ اختیارات کے ساتھ حوالہ کردے، محض نام کرنا کافی نہ ہوگا۔

شرح معانی الآثار میں ہے :

عن الشعبي قال: سمعت النعمان على منبرنا هذا يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " سووا بين أولادكم في العطية كما تحبون أن يسووا بينكم في البر قال أبو جعفر: كأن المقصود إليه في هذا الحديث الأمر بالتسوية بينهم في العطية ليستووا جميعا في البر." 

(کتاب الھبة/ج:4/ص:86/رقم:5836/ط:عالم الکتب)

ترجمہ:حضرت شعبی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو ہمارے اس منبر پرفرماتے ہوئےسناکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انصاف کرو تم اپنے اولاد کے درمیان عطیہ میں جیساکہ تم پسند کرتے ہو کہ وہ برابری کرے تمہارے ساتھ نیکی میں  ۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

و لو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد ‌تفضيل ‌البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، و روي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، و إن كانا سواء يكره و روى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، و إن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن و عليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان و هو المختار، كذا في الظهيرية.

(كتاب الهبة، الباب السادس فی الہبۃ للصغیر:ج،4:ص،391:ط، :رشيديه) 

البحرالرائق ميں ہے:

يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين و إن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء و هو آثم كذا في المحيط ... و في الخلاصة ‌المختار ‌التسوية بين الذكر و الأنثى في الهبة ۔

(کتاب الہبۃ/ج:7/ص:288/ط:دارالکتاب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100507

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں