بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کو جائیداد سے عاق کرنا


سوال

اپنی اولاد کو نافرمانی کی وجہ سے جائیداد وغیرہ سے عاق کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عاق  کرنے  کے معنی نافرمان قرار دینا ہے، جس کی میراث سے محرومی کےحوالے سے شرعاً  کوئی حیثیت نہیں  ہے،یعنی اپنی اولاد  میں سے کسی کو  اپنی جائے داد  سے  عاق کرناجائز نہیں ہے اور نہ ہی شرعاً اس کی کوئی حیثیت ہے،  پس والد کا  اپنی اولا د میں سے کسی کو عاق کرنے سے وہ  عاق (نافرمان ہونے کی وجہ سے) میراث سے محروم نہیں ہوگا،  بلکہ وہ بدستور اس  کی اولاد میں شامل  رہے گا اور والد کی موت کے بعد اس  کے ترکہ  میں اپنے شرعی حصہ کا حق دار ہوگا، البتہ اگر واقعۃً وہ والد  کا نافرمان ہو تو کبیرہ گناہ  کا  مرتکب  ہے، جس  پر  عنداللہ  اس کامواخذہ ہوگا، بشرطیکہ والد کی زندگی میں ہی معافی تلافی نہ کی ہو۔

مشكاة المصابيح  میں ہے:

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَطَعَ مِيرَاثَ وَارِثِهِ قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ.

(1/266، باب الوصایا، ط: قدیمی)

 تکملة رد المحتار  لمحمد علاء الدین   میں ہے: 

الإرث جبري لايسقط بالإسقاط ... الخ

(کتاب الدعوی، باب التحالف، فصل في دفع الدعاوی ،ج:۷،ص:۵۰۵،ط:سعید)

امدادالفتاوی میں ہے:

 الجواب: عاق دو معنی میں مستعمل ہے، ایک معنی شرعی دوسرے عرفی، شرعی معنی تو یہ ہیں کہ اولاد والدین کی نافرمانی کرے، سو اس معنی کی تحقیق میں تو کسی کے کرنے نہ کرنے کو دخل نہیں جو والدین کی بے حکمی کرے، وہ عند اللہ عاق ہوگا، اور اس کا اثر فقط یہ ہے کہ خدا کے نزدیک عاصی ومرتکب گناہ کبیرہ کا ہوگا، باقی حرمانِ میراث اس پر مرتب نہیں ہوتا، دوسرے معنی عرفی یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنی اولاد کو بوجہ ناراضی بے حق ومحروم الارث کردے، سو یہ امر شرعاً بے اصل ہے، اس سے اس کا حق ارث باطل نہیں ہوسکتا، کیوں کہ وراثت ملکِ اضطراری وحق شرعی ہے، بلا قصدِ مورث و وارث اس کا ثبوت ہوتا ہے۔ قال اللّٰه تعالى: {یُوْصِیْکُمُ اللّٰهُ فِيْ اَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْن۔ الاٰیةاور لام استحقاق کے لیے ہے، پس جب اللہ تعالیٰ نے حقِ وراثت مقرر فرمادیا اس کو کون باطل کرسکتا ہے۔ اور نیز قصّہ حضرت بریرہؓ کا شاہد اس کا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے اُن کو خرید کر آزاد کرنے کا ارادہ کیا تھا، اس کے موالی نے شرط کی کہ ولاء ہماری رہے گی، اس پر رسولﷺ نے فرمایا کہ ان کی شرط باطل ہے، اورولاء معتق کی ہے: ’’كما روى النسائي: عن عائشة: أنھا أرادت أن تشتري بریرة للعتق وأنھم اشترطوا ولاء ھا، فذكرت ذلك لرسول اللّٰه ﷺ فقال رسول اللّٰهﷺ: اشتریھا وأعتقیھا؛ فإنّ الولاء لمن أعتق‘‘.  (الحدیث)جب ولاء کہ حق ضعیف ہے، چنانچہ حسبِ فرمودۂ پاک۔ ’’الولاء لحمة كلحمة النسب‘‘. (الحدیث)  ضعف اس کا کافِ تشبیہ سے ظاہر ہے، وہ نفی کرنے سے نفی نہیں ہوتا، پس حقِ نسب کہ اقویٰ ہے، کیوں کر نفی کو قبول کر سکتاہے، پھر جب واضح ہوا کہ اس معنی کا شرعاً کچھ ثبوت نہیں تو اس سے رجوع کی کچھ حاجت و ضرورت نہیں، بعد مرگِ پدرا س کا وارث ہوگا، البتہ محروم الارث کرنے کا طریق یہ ممکن ہے کہ اپنی حالتِ حیات و صحت میں اپنا کل اثاثہ کسی کو ہبہ یا مصارف خیر میں وقف کرکے اپنی ملک سے خارج کردے، اس وقت اس کا بیٹا کسی چیز کا مالک نہیں ہوسکتا، ’’كما في العالمگیریة: لو كان ولدہ فاسقًا وأراد أن یصرف ماله إلى وجوہ الخیر ویحرمه عن المیراث هذا خیر من تركه، كذا في الخلاصة.ج:۳، ص:۶۵۔

(امدادالفتاوی، کتاب الفرائض،  جلد چہارم ، ص:365،ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200464

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں