بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کو ہبہ (گفٹ) دینے میں برابری کا حکم


سوال

میرے سسر کے دو گھر تھے،2005ء میں ایک گھر پہاڑی پر  تھا،جس کو ڈیڑھ لاکھ  روپےمیں فروخت کیا ،اور اس میں سے دو بیٹیوں کو حصہ(50 ،50 ہزار) یہ کہہ کر ساس نے دیا کہ یہ آپ کا حصہ ہے،ایسی کوئی بات نہیں ہوئی کہ والدین کے انتقال کے بعد وراثت میں حصہ نہیں ہوگا،سسر نے کسی قسم کی  ناراضگی کا اظہار نہیں کیا تھا ،دوسرے گھر کی ویلیو 87 لاکھ روپے ہے،ساس کا انتقال ہوچکا ہے،جب کہ سسر حیات ہے،پہلے ساس کا انتقال ہو ا،ورثاء میں شوہر 3 بیٹے ،3 بیٹیاں ہیں ،والدین حیات نہیں۔

اب بیٹے یہ کہتے ہے کہ پہاڑی والے گھر میں سے بہنوں کو حصہ دے دیا گیاہے،لہذا اب موجودہ  گھر میں بیٹیوں کا کوئی حصہ نہیں ہوگا،اور صرف ایک ایک لاکھ روپے تینوں بہنوں کو دے رہے ہیں،کیا ان کا یہ رویہ  درست ہے ؟آیا ابھی بیٹیوں کا مذکورہ گھر میں کوئی حصہ ہوگا؟ اگر ہوگا تو کتنا ہوگا؟َنیز دوبھائی مل کر ایک بھائی  کو    صرف چار لاکھ دے کر حصہ سے فارغ کررہے ہیں جب کہ وہ بیٹا اس پر راضی نہیں ہے،تو کیا اس طرح سے کرنا صحیح ہے؟

نوٹ :مذکورہ مکان اور اسی طرح سے فروخت کردہ مکان کے اصل مالک میرے سسر ہیں،صرف سرکاری کاغذات میں ساس کے نام پر ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکور دونوں گھر چوں کہ سائل کے سسرکی ملکیت ہیں،ساس کے انتقال کے بعد ان کو بطور ترکہ تقسیم نہیں کیاجاسکتا، سسر صاحب کی حیات تک یہ سسرصاحب کی ملکیت ہیں، ان کے  انتقال کے بعد بطور ترکہ ان کے ورثاء میں تقسیم کیاجائے گا،البتہ اگر  سائل کا سسراپنی زندگی میں اپنی خوشی،اور مرضی سے اپنی جائیداد تقسیم کرنا چاہتاہے،تو اس کا طریقہ یہ ہےکہ سائل کا سسراپنی تمام جائیداد سے اپنے لیے جتنا چاہے رکھ لے،تاکہ بوقت ضرورت کام آئے،اور باقی ماندہ مال اپنی تمام اولاد  یعنی بیٹے بیٹیوں میں برابری کی بنیاد پرتقسیم کردے،بلا وجہ کمی بیشی کرنا یا کسی کو محروم کرنا شرعاً جائز نہیں ،اور ایسی تقسیم غیر منصفانہ کہلائے گی،سائل  کا سسرگناہ گار ہوگا،البتہ اولاد میں سے کسی کو معقول وجہ کی بناء پرکچھ زیادہ دیا جا سکتا ہے،یعنی کسی کی کثرت شرافت و دینداری کے،یا غریب ہونے کی بناء پر یا زیادہ خدمت  گزاری کی وجہ سےبنسبت اوروں کے زیادہ دینا جائز ہے،اور جس کو جو دے، اس پر اسے مالکانہ قبضہ ،اور تصرف بھی دے دے،صرف نام کردینا کافی نہیں ہوگا۔

اورساس کاشوہر کی اجازت سےاپنی حیات میں اولاد (بیٹیوں) کو پہاڑی والے گھر   کی قیمت کی رقم حصہ کہہ کر دینے سے بیٹیاں مالک ہوگئیں، البتہ ہبہ یا وراثت کے طور پر رقم تقسیم ہونے کی صورت میں ان کے حصے سے کم کردی جائے گی اور وہ والد کے انتقال کے بعد وراثت سے محروم نہیں ہوں گی۔

نیز بھائیوں کا ایک بھائی کو  کچھ دے کر ترکہ میں اپنے حصہ سے دستبردار ہونے پر مجبورکرنا جائز نہیں ہے،بلکہ مذکورہ بھائی کی رضامندی ضروری ہے بصورتِ دیگرمذکورہ بھائی کو باقی بھائیوں کے برابر حصہ دینا لازم ہے۔ 

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»."

(كتاب البيوع،باب العطایا ، الفصل الأول، ج:2  ص:909 ط: المكتب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

(کتاب الھبۃ، ج:5 ص:690 ط: سعید)

شرح المجلۃمیں ہے:

"المادة:96:لایجوز لأحد أن یتصرف في ملك غیره بلا إذنه أو وکالة منه أو ولایة علیه لا يصح أيضاً الأمر بالتصرف فيه   و يكون الضمان علي المأمور لا علي الأمر مالم يكن مجبراً."

(المقالة الثانية، في قواعد الكلية الفقهية، الأمر بالتصرف في ملك الغير باطل، ج:1 ص:50 ط: شيدية)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: فروع) يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم."

(کتاب الھبة، هبة الأب لطفله، ج:7 ص:288 ط: دار الکتاب الإسلامی)

فتح القدير میں ہے:

"(وإذا كانت ‌الشركة ‌بين ‌ورثة فأخرجوا أحدهم منها بمال أعطوه إياه والتركة عقار أو عروض جاز قليلا كان ما أعطوه إياه أو كثيرا) لأنه أمكن تصحيحه بيعا. وفيه أثر عثمان، فإنه صالح تماضر الأشجعية امرأة عبد الرحمن بن عوف - رضي الله عنه - عن ربع ثمنها على ثمانين ألف دينار."

(كتاب الصلح، فصل في التخارج، ج:8 ص:439 ط: دارالفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507102227

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں