بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کو گفٹ کرنے میں برابری ضروری ہے


سوال

 میرا سوال ہبہ کے بارے میں ہے، ایک صاحب اپنا مکان بیچ کر اُس کی رقم کا70فیصد حصہ اپنے اُن چار بیٹوں کو دینا چاہتے ہیں جو اُن کے ساتھ رہتے ہیں اور شادی شدہ بھی ہیں، باقی 30فیصد حصہ جو الگ رہتے ہیں جن میں پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیاں شادی شدہ ہیں اُن کو دینا چاہتے ہیں، کیااس طرح  کرنا جائز ہے یا برابری ضروری ہے؟

جواب

واضح رہے کہ زندگی میں انسان کو اپنی جائیداد میں ہر قسم کے جائز تصرف کا اختیار حاصل ہوتا ہے، اگر وہ اپنی جائیداد بیچ کر اُس کی رقم اپنی اولاد کو ہبہ (گفٹ) کرنا چاہے تو ایسا کرنا جائز ہے، لیکن اولاد کوکوئی چیز گفٹ کرتے وقت اُن میں برابری کرناضروری ہے، بلاوجہ کسی کوکم اور کسی کو زیادہ دینا جائز نہیں ، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص اگر اپنا مکان بیچ کر اُس کی رقم اپنی اولاد کو ہبہ (گفٹ) کرنا چاہتا ہے تو اُس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے، البتہ زندگی میں اولاد کو جائیداد وغیرہ ہبہ (گفٹ) کرنے کا  شرعی طریقہ یہ ہے کہ صاحبِ جائیداد اپنی جائیدادمیں اپنے لیے جتناچاہے رکھ لے،تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئےاور (اگر بیوی حیات ہو تو)کل مال کے آٹھویں حصہ کے بقدر اپنی بیوی کو دے دے ،اس کے بعد باقی کل جائیداداپنی  اولاد(بیٹوں اور بیٹیوں) میں برابر تقسیم کردے،یعنی جتناحصہ ہر ایک بیٹے کودے اُتنا حصہ ہر ایک بیٹی کوبھی دے، بلا وجہ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ نہ دے اور نہ ہی کسی کومحروم کرے، البتہ اگر کسی کواُس کی دین داری، خدمت گزاری یاتنگ دستی کی وجہ سے دیگر کے بنسبت کچھ حصہ زیادہ دیاجائےتو اس کی گنجائش ہے۔اور جس کو جو دے اُس پر اُسے مالکانہ قبضہ اور تصرف کااختیار بھی دے دے،صرف نام کردینا کافی نہیں ہوگا۔

لہٰذا واضح ہوا کہ مذکورہ شخص کا استفتاء میں ذکرکردہ طریقہ کار کے مطابق اپنی اولاد میں جائیداد تقسیم کرناغیر منصفانہ ہونے کی وجہ سے  ناجائز ہے، جائز اور شرعی طریقہ وہی ہے جو اوپر ذکر ہوا۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(هي) لغة: التفضل على الغير ولو غير مال. وشرعا: (تمليك العين مجانا) أي بلا عوض .... (و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول)."

(کتاب الھبة، 687،688/5، ط: سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے :

"للمالک ان یتصرف فی ملکه أی تصرف شاء."

(کتاب الدعوٰی، 264/6، ط: سعید)

شرح معانی الآثار میں ہے:

"عن الشعبي قال: سمعت النعمان على منبرنا هذا يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سووا بين أولادكم في العطية كما تحبون أن يسووا بينكم في البر."

(کتاب الھبة،‌‌ باب: الرجل ينحل بعض بنيه دون بعض، 86/4، ط: عالم الكتب)

ترجمہ:"حضرت شعبی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا ہمارے اس منبر پر، فرمارہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ برابری کرو تم اپنے اولاد کے درمیان عطیہ میں جیساکہ تم پسند کرتے ہو کہ وہ برابری کرے تمہارے ساتھ نیکی میں ۔"

وفیہ ایضًا:

"عن الشعبي، قال: سمعت النعمان بن بشير، يقول: أعطاني أبي عطية فقالت أمي عمرة بنت رواحة لا أرضى حتى تشهد من الأشهاد رسول الله صلى الله عليه وسلم. فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني قد أعطيت ابني من عمرة عطية وإني أشهدك. قال: «أكل ولدك أعطيت مثل هذا؟» قال لا، قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم."

(کتاب الھبة،‌‌ باب: الرجل ينحل بعض بنيه دون بعض، 86/4، ط: عالم الكتب)

ترجمہ:"حضرت نعمان بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے ایک عطیہ دیا ،تو میری والدہ عمرۃ بنت رواحۃ نے کہاکہ میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گی،جب تک آپ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوگواہ نہ بناؤ،چنانچہ میرے والدنے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر) عرض کیاکہ :"میں نے  اپنے بیٹے جو(میری  بیوی) عمرہ سے ہےکو عطیہ دیاہے اور میں اس پر آپ کوگواہ بناتاہوں"، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ:"  کیاتم نے اپنی تمام اولاد کواس جیساعطیہ دیاہے؟"، تو میرے والد نے عرض کیا:"نہیں"، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو۔"

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية."

  (کتاب الھبة، الباب السادس، 391/4، ط: رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100474

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں