بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کی شادی میں تاخیر کرنا


سوال

میں ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں اور وہ بھی مجھے پسند کرتی ہے، ہمارے گھر والوں کو بھی اس بات کا پتہ ہے، میں نے رشتہ بھیجا تھا تو ان کے والدین نے جواب دیا تھا کہ چار  سال کے بعد دیکھیں گے۔

سوال یہ ہے کہ کیا میرا اس سے بات کرنا جائز ہے؟ کیا ہم گھر والوں کی اجازت کے بغیر  نکاح اور شادی کر سکتے ہیں؟

یا ہم چار  سال تک ( جیسا کہ اس کے  والدین نے کہا ہے ) بالکل رابطہ منقطع کردیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل کا مذکورہ لڑکی سے نکاح سے قبل  بلا ضرورت بات چیت کرنا جائز نہیں ہے، جب تک نکاح نہیں ہوجاتا، دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں،دونوں پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے رابطہ بالکل منقطع کردیں۔

2۔واضح رہے کہ بالغ لڑکا اور لڑکی اگر باہمی رضامندی سے گواہوں کے سامنے ایجاب وقبول کرلیں تو نکاح ہوجاتا ہے،تعلقات حلال اور بچے ثابت النسب ہوتے ہیں ، تاہم نکاح کے سلسلے میں والدین کی پسند کو اپنی پسند پر ترجیح دینا زیادہ بہتر ہے؛کیوں کہ ان کا تجربہ زیادہ ہوتا ہے اور اس میں سعادت اور خیر بھی ہے، ایسی جگہ نکاح کرنے پر مصر نہ ہوں جہاں والدین بالکل راضی نہ ہوں،  اسی طرح والدین بھی اپنی اولادکا  کسی ایسی جگہ نکاح نہ کروائیں جہاں وہ بالکل راضی نہ ہوں، نکاح کے باب میں ان سے اجازت لینا ضروری ہے،لہٰذا سائل   اور جس لڑکی کو سائل پسند کرتا ہے،دونوں کو چاہیے کہ اپنے والدین کو بھی راضی کریں اور ان کے ذریعے نکاح اور شادی کی ترتیب بنوائیں،گھر والوں کی اجازت کے بغیر  از خود نکاح اور شادی کرنے میں جلد بازی نہ کریں، تاہم دونوں کے والدین اگر بلا کسی عذر  تاخیر کر رہے ہیں اور گناہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں سائل اگر اپنی بیوی کا نان نفقہ  اور رہائش دینے پر قادر ہے تو گھر والوں کی اجازت کے بغیر نکاح کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"وعن أبي سعيد وابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ ولم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه."

(مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، ‌‌باب الولي في النكاح واستئذان المرأة، الفصل الثالث، ج:2، ص:939، رقم:3138، ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ: "جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا۔"

ایک دوسری حدیث میں ہے:

''وعن عمر بن الخطاب وأنس بن مالك رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " في التوراة مكتوب: من بلغت ابنته اثنتي عشرة سنةً ولم يزوّجها فأصابت إثماً فإثم ذلك عليه. رواهما البيهقي في شعب الإيمان''.

(مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، ‌‌باب الولي في النكاح واستئذان المرأة، الفصل الثالث، ج:2، ص:939، رقم:3139، ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ:" تورات میں درج ہے کہ جس کی بیٹی بارہ سال کی ہوجائے اور وہ اس کا نکاح نہ کرے، پھر لڑکی سے کوئی گناہ ہوجائے تو باپ بھی گناہ گار ہوگا۔"

فتاویٰ شامی میں ہے:

"( فنفذ نكاح حرة مكلفة لا ) رضا ( ولي ) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا ( وله ) أي للولي (إذا كان عصبةً) ولو غير محرم كابن عم في الأصح، خانية. وخرج ذوو الأرحام والأم وللقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح ( ما لم ) يسكت حتى ( تلد منه)". 

"يستحب للمرأة تفويض أمرها إلى وليها كي لاتنسب إلى الوقاحة، بحر. وللخروج من خلاف الشافعي في البكر، وهذه في الحقيقة ولاية وكالة ( أيضاً)."

(كتاب النكاح، باب الولي، ج:3، ص:55/ 56، ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(قوله الخلوة بالأجنبية) أي الحرة لما علمت من الخلاف في الأمة، وقوله: حرام قال في القنية مكروهة كراهة تحريم."

(کتاب الحظر والإباحۃ ،فصل فی النظر والمس، ج:6، ص:368، ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144410100056

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں