بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کے درمیان تقسیم جائیداد کی تفصیل


سوال

1) ہمارے والدصاحب کاایک مکان تھا، اس میں والد صاحب اپنی اہلیہ ،دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کے ساتھ رہتے تھے، بڑے بیٹے کی شادی کے بعد والد نے اس بیٹے کو ایک الگ مکان خرید کر دیا،یہ مکان والد صاحب نے اس بیٹے کو ہبہ کر دیاتھا، اور اس کو اس پر قبضہ بھی دےد یا، پھر کسی وقت بڑے بیٹے نے یہ کہا کہ والد صاحب کا جو پرانا مکان تھا اس میں اس کا حصہ نہیں ہے۔

والد صاحب نے وہ مکان فروخت کر کے ایک اور مکان خرید لیا، پھر اپنے چھوٹے بیٹے  کو کہا کہ دونوں بہنوں کو اس مکان میں سے ان کا حصہ دے دو تاکہ ان کا اپنا گھر ہو جائے، چھوٹے بیٹے نے دونوں بہنوں کو نقد کی صورت میں اپنے پاس سے اس مکان میں سے ان کا حصہ دے دیا، اس کے بعد والد صاحب نے یہ تحریر لکھ دی کہ اس مکان کا  75 فیصد میں نے چھوٹے بیٹے کو اور 25 فیصد بیوی کو گفٹ کر دیا ہے، البتہ مکان والد صاحب کے نام پر ہے، والد اور والدہ دونوں حیات ہیں اور اسی مکان میں رہائش پذیر ہیں۔

کیا والد صاحب کا اس طرح گفٹ کرنا درست ہے اور کیا اس مکان میں اب دیگر بہن بھائیوں کا حصہ ہےیا نہیں ؟ کیو ں کہ اب بڑا بیٹا اس مکان میں اپنے حصے کا مطالبہ کر رہا ہے، کیا اس کا مطالبہ کرنا درست ہے؟

2) والد صاحب کی ایک دکان تھی اس میں والد صاحب کا کاروبار تھا، بڑا بیٹا بھی والد صاحب کے ساتھ اس دکان میں کام کرتا تھا،  اس دکان کی قیمت تقریباً 40 لاکھ تھی، والد صاحب نے یہ دکان اور کاروبار بڑے بیٹے کو بیچ دیا، بدلے میں بڑے بیٹے نے ایک اور دکان دی، جس کی قیمت 15 لاکھ تھی، کچھ وقت کے بعد والد صاحب نے یہ دکان 23 لاکھ میں فروخت کر دی پھر 30 لاکھ روپے کی ایک اور دکان خریدی جس میں 7 لاکھ روپے چھوٹے بیٹے نے لگائے، والد صاحب نے کہا  ہے کہ اس دکان میں بھی بڑے بیٹے کا حصہ نہیں ہے،  چھوٹے بیٹے اور دو بیٹیوں کا حصہ ہے، اب بڑا بیٹا اس دکان میں بھی اپنے حصہ کا مطالبہ کر رہا ہے، کیا اس کا مطالبہ کرنا درست ہے؟

جواب

1)واضح رہے کہ اگر کوئی شخص کسی قابلِ تقسیم چیز کو مختلف لوگوں کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرتا ہے تو اس کا ہبہ اور تحفہ مکمل ہونے  اور  اس چیز  کی ملکیت منتقل ہونے کے لیے لازمی ہے کہ ہبہ کرنے والا شخص  یا تو خود اس چیز کو تقسیم کر کے جنہیں ہبہ کیا ہےان کے حوالے کرے ،یا ان میں سے کسی ایک کو یہ کہہ دے کہ اس کو آپس میں تقسیم کر کے قبضہ کر لو، یا ہبہ کرنے والے کا  نائب اس چیز کو ان کے درمیان  تقسیم کردے، اگر ان تین میں سے کوئی صورت نہ ہو تو یہ ہبہ مکمل نہ ہوگا اور ہبہ کرنے والا بدستور اس چیز کا  مالک رہے گا۔

صورتِ مسئولہ میں والد صاحب نے چوں کہ اپنے بڑے بیٹے کو ایک مکان گفٹ کر دیا تھا اور والد کے کہنے پر چھوٹے بیٹے نے اپنی دونوں بہنوں کو نقد کی صورت میں ان کا حصہ دے دیا تھا، اور اب والد صاحب موجودہ مکان چھوٹے بیٹے کو گفٹ کرنا چاہتے ہیں تو اس کا درست طریقہ یہ ہے کہ اگر والد صاحب پورا مکان چھوٹے بیٹے کو دینا چاہیں تو مکان سے باہرآکر  چھوٹے بیٹے کو  مکان اس میں موجود سامان سمیت گفٹ کر دیں اور اس کی چابی بیٹے کو حوالے کر کے بیٹے کو اس پر مکمل قبضہ و تصرف دے دیں تو یہ ہبہ مکمل ہو جائے گا اور بیٹا اس مکان کا مالک بن جائے گا یا اگر سامان بیٹے کو ہبہ کرنا مقصود نہ ہو تو پہلے  مکان میں موجود اپنا سامان بیٹے کے پاس ودیعت یعنی امانت رکھوا دیں، پھر مکان بیٹے کو مذکورہ طریقہ کے مطابق ہبہ کردیں۔

اور اگر مکان کا کچھ حصہ بیٹے کو اور کچھ اپنی اہلیہ کو دینا چاہیں تو  اس کے لیے ضروری ہے کہ ہبہ کرنے کے بعد  یا تو خود مکان کو تقسیم کر کے دونوں کو اپنے اپنے حصے پر مکمل قبضہ دے دیں یا بیٹے کو ہی تقسیم کرنے کا کہہ دیں یا کسی تیسرے شخص  کو مکان تقسیم کرنے کی ذمہ داری دے دیں۔

 والد صاحب اگر اس مکان کو اوپر ذکرکردہ طریقہ کے مطابق اپنی اہلیہ اور چھوٹے بیٹے کوگفٹ کردیتے ہیں توپھر  بڑے بیٹے   اور بہنوں کااس مکان میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

 2) 30 لاکھ کی دکان کی خریداری کے وقت  چھوٹے بیٹے نے 7 لاکھ روپے اگر شراکت داری کے لئے  دیے تھے تو بیٹا اس دکان میں 23.33 فیصد کا شریک ہے، جب کہ باقی 76.67 فیصد کے مالک والد صاحب ہیں،  اب اگر والد صاحب اس دکان کو اپنے چھوٹے بیٹے اور دو بیٹیوں کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے ہیں  اور بڑے بیٹے کو انہوں نے اس سے پہلے والی دکان کم قیمت میں فروخت کی تھی اور کاوربار بھی اسے دے دیا تھا تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے،  ایسی صورت میں والد صاحب کو چاہیے کہ نمبر 1 میں مذکور تفصیل کے مطابق یہ دکان بیٹے او ر بیٹیوں کو ہبہ کردیں، البتہ اگر دکان ایسی ہو کہ تقسیم کرنے کے بعد اس سے کسی قسم کا فائدہ اٹھانا ممکن نہ ہو تو اس کو ہبہ کرنے کےلیے صرف قبضہ دینا ضروری ہوگا، تقسیم کی شرط نہیں ہوگی۔

مکان کی طرح دکان میں بھی بڑے بیٹے کا حصے کا مطالبہ درست نہیں ہے، البتہ والدصاحب پر لازم ہے کہ بچوں کے درمیان تقسیم کرتے وقت برابری کا لحاظ رکھیں، بلا وجہ کسی کے حصے میں کمی بیشی کرنا یا اولاد میں سے کسی کو  محروم کرنا مکروہ ہے۔

الدر المختار مع حاشیہ ان عابدین میں ہے:

"(لا) تتم بالقبض (فيما يقسم ولو) وهبه (لشريكه) أو لأجنبي لعدم تصور القبض الكامل كما في عامة الكتب فكان هو المذهب وفي الصيرفية عن العتابي وقيل: يجوز لشريكه، وهو المختار (فإن قسمه وسلمه صح) لزوال المانع".

وفي الرد:

"(قوله: وهو المختار) قال الرملي: وجد بخط المؤلف يعني صاحب المنح بإزاء هذا ما صورته، ولا يخفى عليك أنه خلاف المشهور

(قوله: فإن قسمه) أي الواهب بنفسه، أو نائبه، أو أمر الموهوب له بأن يقسم مع شريكه كل ذلك تتم به الهبة كما هو ظاهر لمن عنده أدنى فقه تأمل".

(8/ 576، ط:وحيدية)

فتاوی قاضی خان میں ہے:

"ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى".

(کتاب الهبة،فصل في هبة الوالد لولده، 3/150، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144306100477

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں