بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کے درمیان ہبہ میں کمی بیشی کرنا اور اس کے ازالے کی صورت


سوال

میرے والدین مرحومین نے اپنی زندگی میں اپنی تمام جائیداد تمام بیٹوں سے ہر ایک کو اور بیٹیوں میں سے صرف ایک بڑی بیٹی (جو مطلقہ تھی) کو مکمل قبضہ و تصرف کے ساتھ دے دی تھی، اور ان کے درمیان تقسیم کردی تھی، ایک بڑی بیٹی کے علاوہ باقی تین بیٹیوں کو کچھ نہیں دیا تھا ،اور ان میں سے بعض نے جب والدین سے ان کی زندگی میں حصہ مانگا تو اس وقت بھی والدین نے صاف انکار کردیا تھا اور اس بات کے چند گواہان بھی زندہ ہیں، مجھے والدین کی جائیداد میں سے جو پلاٹ ملا تھا، اسے میں نے آٹھ سال قبل 12 لاکھ روپے میں فروخت کردیا تھا اور اس وقت اس پر کسی کو اعتراض بھی نہیں تھا، لیکن اب دو بہنیں اختلاف کررہی ہیں۔ تو پوچھنا یہ ہے کہ جو پلاٹ میں فروخت کرچکا ہوں، اسے فروخت کرنے میں، میں نے کسی کی حق تلفی تو نہیں کی؟ اور وہ میری ملکیت تھا یا اس میں مرحومین کی بیٹیوں کا بھی حصہ بنتا ہے؟ اگر بنتا ہے تو آج کی مارکیٹ ویلیو کے حساب سے یا جس وقت اسے فروخت کیا تھا، اس وقت کے حساب سے؟

جواب

واضح رہے کہ زندگی میں صاحبِ جائیداد کی طرف سے اولاد کے درمیان جو جائیداد تقسیم کی جاتی ہے، وہ شرعاً تحفہ اور عطیہ ہوتی ہے اور اولاد کے درمیان  عطیہ کرنے  میں حکم یہ ہے کہ تمام اولاد یعنی تمام بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر تقسیم کرے، بلا وجہ نہ کمی بیشی کرے، نہ ہی کسی کو محروم کرے، البتہ اگر کسی کو ضرورت مند ہونے یا کمانے سے عاجز ہونے یا زیادہ دیندار ہونےیا کثرتِ شرافت اور خدمت گزار ہونے  کی بناءپراوروں کی بنسبت کچھ زیادہ دے دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ اس  سے کسی دوسرے وارث کو نقصان پہنچانا مقصد نہ ہو اور اگر کسی وارث کو نقصان پہنچانا مقصد ہو تو یہ مکروہِ  تحریمی ہے، لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص کمی بیشی  کے ساتھ اپنی جائیداد زندگی ہی میں تقسیم کر لے اور مکمل قبضہ و حقِ تصرف بھی دیدے تو یہ ہبہ صحیح ہو جائے گا اور جس وارث کو جو حصہ ملا ہے، وہ اس کا مالک ہو جائے گا اور باقی وارثوں کا اس میں کوئی حق و حصہ نہیں ہوگا۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں سائل کے والدین مرحومین نے زندگی میں اپنی تمام جائیداد کمی بیشی کے ساتھ اپنے بعض ورثاء (تمام بیٹوں اور بیٹیوں میں صرف ایک بڑی بیٹی) میں تقسیم کرنے کے بعد چونکہ ہر ایک حصے پر ہر ایک کو قبضہ بھی دیدیا تھا، اس لیے  ان کے حق میں یہ ہبہ مکمل ہو گیا تھا اور وہ مالک بن گئے تھے، لہٰذا سائل کے حصے میں جو پلاٹ آیا تھا جسے اس نے فروخت کردیا تھا، وہ سائل ہی کی ملکیت تھا، باقی والدین کی یہ تقسیم غیر منصفانہ تھی، انکا زندگی میں اپنی تین بیٹیوں کو  بلاوجہ شرعی محروم کردینا اور کچھ بھی نہ دینا جائز نہیں تھا، مرحومین اپنے اس عمل کی وجہ سے گناہ گار ہوئے، اگر اس غیر منصفانہ تقسیم میں بیٹوں اور بڑی بیٹی کا کوئی مشورہ یا کردار نہیں تو وہ اس گناہ میں شریک نہیں اور اگر کوئی کردار تھا تو وہ بھی اس گناہ میں والدین کے ساتھ شریک ہیں، بہرحال اولاد شریک ہو یا نہ ہو، والدین کی غلطی ضرور ہے، اب  مرحومین کے اس گناہ کے ازالہ اور تلافی کی صورت یہ ہے کہ مرحومین کے تمام بیٹے اور بڑی بیٹی اپنے والدین سے ہبہ میں ملی ہوئی جائیداد کو بھی تقسیم کردیں اور اس طرح تقسیم کر دیں کہ اس جائیداد میں  ان کا حصہ   مرحومین کی باقی تین بیٹیوں کے برابر ہو جائے اور والدین آخرت کے مؤاخذہ سے بچ جائیں، لیکن اگر ایسا نہ کریں تو بیٹیاں ان کو اس پر مجبور نہیں کرسکتی ہیں۔

صحیح بخاری میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:  کہ ان کے والد ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے لڑکے کو ایک غلام دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا :"کیا ہر اولاد کو ایسا ہی دیا ہے؟" جواب دیا کہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  :"اس سے رجوع کر لو "۔

نیز سنن کبری للبیہقی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  :"اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو"۔

اسی طرح مسند حارث میں حضرت عبدا اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی  ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "عطیہ دینے میں اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو، پس اگر میں کسی کو (عطیہ اور تحفہ میں) ترجیح دیتا تو عورتوں کو ترجیح دیتا"۔

فتاوی شامی  میں ہے:

"وتتم الھبة بالقبض الكامل ولو الموھوب شاغلا لملك الواھب لامشغولا به، والأصل أن الموھوب إن مشغولا بملك الواھب منع تمامھا، وإن شاغلا لا."

(ج:5، ص:690، کتاب الھبة، ط:سعید)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاما، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله» قال: لا، قال: «فارجعه»"

(ج:1، ص:352، کتاب الھبة، باب الھبة للولد، ط:قدیمي)

السنن الكبرى للبیہقی میں ہے:

"عن عامر قال: سمعت النعمان بن بشير يقول وهو على المنبر: أعطاني أبي عطية، فقالت له عمرة بنت رواحة: لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إني أعطيت ابن عمرة بنت رواحة عطية وأمرتني أن أشهدك يارسول الله، قال: أعطيت سائر ولدك مثل هذا؟ قال: لا، قال: فاتقوااللهواعدلوا بين أولادكم، قال: فرجع فرد عطيته."

(ج:6، ص:292، کتاب الھبات، باب السنة في التسویة بین الأولاد في العطیة، ط:دار الکتب العلمیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144306100809

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں