بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کے حصول کے لیے آئی یو آئی کروانے کا حکم


سوال

ہماری شادی کو چھ سال ہوگئے ہیں اور اولاد نہیں ہے، ہر طرح کے ٹیسٹ اور علاج بھی کراوئے ہیں، اب اس سال مجھے فائبرائیڈ اور سسٹ ہوگئی ہے، ڈاکٹر کےمطابق اگر پریگننسی ہوجائے تو یہ بہتر ہوجائے گی، چھ سال کی وجہ سے ڈاکٹر نے آئی یو آئی تجویز کیا ہے، اس میں شوہر کا جرثومہ لے کر ڈاکٹر اسے واش کرےگی اور پھر انجیکشن سے عورت کے رحم میں ڈالتے ہیں کیا یہ جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر شوہر کا مادہ منویہ نکالنے اور بیوی کے رحم میں داخل کرنے کے عمل میں کسی اجنبی مرداور عورت کا دخل نہ ہو، یعنی مادہ منویہ بھی شوہر کا ہی ہو اور اسی کی بیوی کے رحم میں ڈالا جائے اور یہ کام  ڈاکٹر سے تربیت لے کر شوہر اور بیوی خودانجام دیں تو اس کی گنجائش ہے، لیکن اگر مادہ منویہ شوہر کے علاوہ کسی اور کا ہو، یا شوہر کے مادہ منویہ  کوغیرفطری طریقہ سے نکالنے یا عورت کے رحم میں داخل کرنے میں تیسرے مردیاعورت کا عمل دخل ہو اور اجنبی مردیاعورت کے سامنے ستر کھولنے  یا چھونے کی ضرورت پڑتی ہو تو اس طرح کرنے کی شرعاً اجازت نہیں،  کیوں کہ حصول اولاد کی یہ کوشش شرعی اعتبار سے ضرورت کے دائرہ میں نہیں آتی ہے ۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"وقال في الجوهرة: إذا كان المرض في سائر بدنها غير الفرج يجوز النظر إليه عند الدواء، لأنه موضع ضرورة، وإن كان في موضع الفرج، فينبغي أن يعلم امرأة تداويها فإن لم توجد وخافوا عليها أن تهلك أو يصيبها وجع لا تحتمله يستروا منها كل شيء إلا موضع العلة ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن موضع الجرح."

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی النظر والمس،ج:6،ص:371،سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ذکر شمس الأیمة الحلواني رحمه اللہ تعالی في شرح کتاب الصوم أن الحقنة إنما تجوز عند الضرورة، وإذا لم یکن ثمة ضرورة ولکن فیھا منفعة ظاھرة بأن یتقوی بسببھا علی الجماع لا یحل عندنا………کذا فی الذخیرة."

(کتاب الکراہیۃ،الباب التاسع فی اللبس ۔۔۔،ج:5،ص:330،دارالفکر)

بدائع الصنائع ميں ہے:

"ولا یجوز لھا أن تنظر ما بین سرتھا إلی الرکبة إلا عند الضرورة، بأن کانت قابلة فلا بأس لھا أن تنظر إلی الفرج عند الولادة، وکذا لا بأس أن تنظر إلیہ لمعرفة البکارة في امرأة العنین، والجاریة المشتراة علی شرط البکارة إذا اختصما، وکذا إذا کان بھا جرح أو قرح في موضع لا یحل للرجال النظر إلیہ فلا بأس أن تداویھا، إذا علمت المداومة، فإن تعلم تتعلم ثم تداویھا، فإن توجد امرأة تعلم المداومة ولا امرأة تتعلم وخیف علیھا الھلاک أو بلاء أو وجع لا تحملہ یداویھا الرجل، لکن لا یکشف منھا إلا موضع الجرح ویغض بصرہ مااستطاع."

(کتاب الاستحسان،ج: 6،ص:499، ط: دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144511102009

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں