بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی صحت کی وجہ سے اولاد کے سلسلہ کو روکنا


سوال

میری شادی کے تقریباً 8 ماہ ہوئے  ہیں ،میں اور میری بیگم اس بات پر راضی ہیں کہ ہم پہلے بچے کے لیے 2 سال کا وقفہ کرنا چاہتے ہیں ،اس کی وجہ بیوی کی کمزوری بھی ہے ۔کیا یہ میرے لیے جائز ہے ؟

جواب

نکاح اور شادی کا مقصد توالد وتناسل اور انسانی نسل کی بقاہے اور کثرتِ اولاد شریعت میں پسندیدہ ہے؛ اس لیے بلا عذر اولاد کی پیدائش کے سلسلے کو روکنادرست نہیں ۔ البتہ اگر واقعۃً  سائل کی بیوی اتنی کم زور ہو  کہ حمل کا بوجھ   اٹھانے کی استطاعت نہ ہو، حمل اور درد زہ کی تکالیف جھیلنے کی سکت نہ ہو  یا  بچہ کی ولادت کے بعد   شدید کم زوری اور نقاہت لاحق ہونے کا اندیشہ ہوتو وقتی طور پر حمل کے روکنے کی تدبیر اختیار کرنا جائز ہے ۔اور اگر یہ اعذار نہ ہوں بلکہ محض نفس پرستی ہو تو اس قسم کا وقفہ کرنا بہتر اور مناسب نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ويعزل عن الحرة) وكذا المكاتبة، نهر بحثاً، (بإذنها)، لكن في الخانية أنه يباح في زماننا؛ لفساده، قال الكمال: فليعتبر عذراً مسقطاً لإذنها، وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج، (وعن أمته بغير إذنها) بلا كراهة.
(قوله: قال الكمال) عبارته: وفي الفتاوى إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها؛ لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطاً لإذنها. اهـ. فقد علم مما في الخانية أن منقول المذهب عدم الإباحة، وأن هذا تقييد من مشايخ المذهب؛ لتغير بعض الأحكام بتغير الزمان، وأقره في الفتح، وبه جزم القهستاني أيضاً حيث قال: وهذا إذا لم يخف على الولد السوء؛ لفساد الزمان، وإلا فيجوز بلا إذنها. اهـ. لكن قول الفتح: فليعتبر مثله إلخ يحتمل أن يريد بالمثل ذلك العذر، كقولهم: مثلك لايبخل. ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد، أو في دار الحرب فخاف على الولد، أو كانت الزوجة سيئة الخلق ويريد فراقها فخاف أن تحبل، وكذا ما يأتي في إسقاط الحمل عن ابن وهبان، فافهم".

(فتاوی شامی،ج:3،ص: 175،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502102191

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں