بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کے حقوق


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں:۔

1. میری والدہ نے میری خالہ کی لڑکی یعنی میری کزن کو پیدائش سے لے کر تین چار سال تک خود پالا پھر میری والدہ کی شادی ہوگئی اور اس کے بعد انھوں نے بھانجی کا تقریباً سارا خرچ اٹھایا پھر ان کی شادی وغیرہ بھی خود کرائی ہے حالانکہ میری خالہ ابھی بھی زندہ ہیں۔ میری والدہ اپنی بھانجی کی بہت زیادہ طرفداری کرتی ہیں اور ان کی ایسی حمایت کرتی ہیں کہ ہر بات پر اُنہیں مجھ پر ترجیح دیتی ہیں حالانکہ میں اُن کی سگی لڑکی ہوں لیکن میری ہر صحیح بات کو غلط ٹھہرا دیتی ہیں اور اپنی بھانجی کی غلط بات کو بھی صحیح ٹھہرا دیتی ہیں۔ اپنی بھانجی کے غموں کو، دکھوں کو اپنا دکھ سمجھتی ہیں اور اپنی بھانجی کے دکھ میں اُن کے ساتھ کھڑی رہتی ہیں لیکن میرے دکھ، میری پریشانیوں پر دھیان ہی نہیں دیتیں۔ مجھے تنہا چھوڑ دیتی ہیں اور یہ طعنہ دیتی ہیں کہ اپنے سسرال والوں کی طرح جھوٹی ہے مکار ہے۔ اپنی بھانجی کی جھوٹی باتوں کو سچ مانتی ہیں اور میری سچی باتوں کو بھی جھٹلا دیا کرتی ہیں۔ میری والدہ میری جگہ اپنی بھانجی کو سگی اولاد سے بھی زیادہ درجہ دیتی ہیں اور مجھے اپنی اولاد ہی نہیں سمجھتیں۔ یہاں ایک بات کی وضاحت کردوں کہ میری کزن کی اپنی سگی ماں اور سگے بھائی اور بہن سے نہیں بنتی ہے۔ اگر میری والدہ کسی کی غیبت کرتی ہیں اور میں انہیں ٹوک دیتی ہوں یا منع کرتی ہوں ان کی کسی غلط بات پر تو پھر وہ مجھے بد دعائیں دینا، کوسنا شروع کر دیتی ہیں۔

2. سبھی اولادوں کو ایک نظر سے نہیں دیکھتیں بھائیوں کو مجھ پر زیادہ فوقیت دیتی ہیں۔ میری والدہ کے اس رویے سے میرے ذہن پر بہت زیادہ منفی اثرات پڑ رہے ہیں ایک تو میری خالہ زاد بہن کو مجھ پر ترجیح دیناجیسے کہ وہ سگی اولاد ہو اور مجھ سے سوتیلا پن ظاہر کرتی ہیں دوسرا یہ کہ ہم بہن بھائیوں میں تفریق کرنا ایک نظر سے نہیں دیکھنا قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بتا دیجیے کہ 1۔ کیا میری والدہ کا اس طرح کا رویہ رکھنا درست ہے؟ 2. کیا قرآن و حدیث میں اولاد کے حقوق کا ذکر نہیں ہے؟ اولاد کے حقوق قرآن و حدیث کے حوالے سے ذکر فرما دیجئے 3. اولاد کے درمیان تفریق کرنے پر اگر وعیدیں ہوں تو ان کا بھی ذکر فرما دیجئے تاکہ میری والدہ کی صحیح رہنمائی ہوسکے اور وہ اس گناہ سے بچنے کی کوشش کریں۔

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں اس سلسلے میں دوطرفہ حقوق (اولاد کے والدین پر اور والدین کے اولاد پر دونوں) کی حدود واضح کر دی گئی ہیں، قرآنِ کریم میں خدا تعالی نے والدین کی اطاعت کے ضروری ہونے کو توحید جیسے اہم عقیدے کے ساتھ ذکر کرکے اس کی اہمیت بتلادی ہے،اولاد کے ذمے لازم ہے کہ والدین کی شریعت کے موافق ہر حکم کو بجالائے، اگر والدین بے جا  ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں ،  اس صورت میں بھی والدین کا احترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے،اور انہیں شرعی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے حکمت و مصلحت کے ساتھ سمجھانا چاہیے، اور والدین جب غصہ ہوں تو ان کے سامنے جواب نہ دیں، انہیں جھڑکیں نہیں، بلکہ ادب سے ان کی بات سنیں، اور ان کے حق میں وہ دعا کرتے رہیں،  جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآنِ کریم میں سکھائی ہے:

"رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیَانِيْ صَغِیْرًا."(بني إسرائيل:٢٤)

ترجمہ:" اے میرے پروردگار! ان دونوں (میرے والدین) پر رحمت فرمائیے، جیسا انہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیاہے۔"(بیان القرآن)

اس حوالے سے رسول اللہ( ﷺ) کی تعلیم درج ذیل حدیث سے سمجھی جاسکتی ہے:

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان".

(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث، ج:٣، ص:١٣٨٢، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع و فرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے، ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔" 

نیز والدین کے ذمے بھی لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد میں ہر ممکن حد تک برابری اور انصاف کریں، بلاووجہِ شرعی کسی اولاد کو دوسرے سے کم نہ سمجھیں، نہ کسی کو فوقیت دیں اور ان کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"اتقوا الله واعدلوا بين اولادكم."

(الجامع الصحیح للبخاری، كتاب الهبة، باب الاشهاد علي الهبة، رقم الحديث:2587)

ترجمہ:"اللہ سے ڈرو ،اور اپنی اولاد کےدرمیان انصاف کرو۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100783

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں