بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اعوان برادری کو زکاۃ دینا


سوال

اعوان برادری کو  زکاۃ دینا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے جس مسلمان کے پاس اس کی بنیادی ضرورت  و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے وغیرہ) سے زائد،  نصاب کے بقدر  (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت  کے برابر) مال یا سامان موجود نہ ہو  اور وہ سید/ عباسی نہ ہو، وہ زکاۃ کا مستحق ہے،اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے ضرورت کے مطابق زکاۃ لینا جائز ہے۔

بصورتِ  مسئولہ اگر اعوان برادری کا سلسلہٴ نسب بہ واسطہ محمد بن الحنفیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے(جیسا کہ مشہور ہے) اور اعوان برادری کے پاس اس سلسلہ میں مستند شجرہٴ نسب بھی موجود ہے تو  یہ  برادری سادات سے شمار ہوگی اور ان کا آپس میں ایک دوسرے کو زکوة دینا جائز نہ ہوگا اور  نہ ہی کسی دوسری برادری کا انھیں زکوة دینا جائز ہوگا۔ اوراگر یہ محض سنی سنائی یا مشہور کی ہوئی بات ہے تو ایسی صورت میں اعوان برادری کے اہلِ علم حضرات کو چاہیے کہ وہ اپنی برادری کے متعلق تحقیق کریں کہ یہ برادری واقعتاً سادات سے ہے یا نہیں؟ اور اگر سید نہیں ہے اور نہ ہی صاحبِ نصاب ہے تو زکوۃ کا مستحق ہونے کی وجہ سے  ایک دوسرے کو بھی زکوۃ دے سکتے ہیں اور دوسری برادری کا بھی انھیں زکوۃ دینا جائز  ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أمّا تفسیرها فهي تملیك المال من فقیر مسلم غیر هاشمي و لامولاہ بشرط قطع المنفعة عن المملك من كلّ وجه لله تعالی."

(الهندیة، ج:1 ص:170،کتاب الزکوۃ،ط:مکتبه حقانیه)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و لایدفع إلی بني هاشم و هم آل علي و آل عباس و آل جعفر و آل عقیل و آل الحارث بن عبد المطلب، کذا في الھدایة. و یجوز الدفع إلی من عداهم كذریة أبي لھب؛ لأنهم لم یناصروا النبي صلى الله علیه و سلّم، کذا في السراج الوهاج."

(الفتاوی الھندیة، کتاب الزکاة، الباب السابع فی المصارف، ۱: ۱۸۹، ط: المکتبة الحقانیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144109202867

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں