بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اوابین کے لیے ترغیبی اعلان کرنے کا حکم


سوال

 کسی اجتماع کے موقع پر بعد نمازِ مغرب تبلیغی جماعت کے افرادیہ اعلان کرتے ہیں کہ اوابین کی چھ رکعت ادا کر لیں، اس کی بڑی فضیلت آئی ہے ،تو یہ اعلان کرنا کیسا ہے؟

جواب

مغرب کے فرض اور سنتوں کے بعد چھ رکعت نفل اوابین کے ادا کرنا مستحب عمل ہے ،لیکن مغرب کی نماز کے بعد یہ اعلان کرنا کہ اوابین کی چھ رکعات ادا کرلیں ،قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ہے،اور  اکابر امت سے اس  کی کوئی نظیر بھی نہیں ملتی،لہذا اس قسم کا اعلان  کرنا شرعاً درست نہیں ہے،ورنہ تمام نوافل کے لیے اعلان کرنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا،جو کہ شریعت سے ثابت نہیں ہے۔

اس کا درست طریقہ یہ ہے کہ بیان کے موقع پر نوافل کی فضیلت بیان کردی جائے۔

سنن ترمذی میں ہے:

"عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من صلى بعد المغرب ست ركعات لم يتكلم فيما بينهن بسوء عدلن له بعبادة ثنتي عشرة سنةً»".

(کتاب الصلوۃ،باب ما جاء في فضل التطوع وست ركعات بعد المغرب،ج:1،ص:456،رقم:435،ط:دار الغرب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وست بعد المغرب) ليكتب من الأوابين (بتسليمة) أو ثنتين أو ثلاث والأول أدوم وأشق وهل تحسب المؤكدة من المستحب ويؤدى الكل بتسليمة واحدة؟ اختار الكمال: نعم.

(قوله: بتسليمة أو ثنتين أو ثلاث) جزم بالأول في الدرر، وبالثاني في الغزنوية، وبالثالث في التجنيس كما في الإمداد، لكن الذي في الغزنوية مثل ما في التجنيس، وكذا في شرح درر البحار. وأفاد الخير الرملي في وجه ذلك  أنها لما زادت عن الأربع وكان جمعها بتسليمة واحدة خلاف الأفضل، لما تقرر أن الأفضل رباع عند أبي حنيفة؛ ولو سلم على رأس الأربع لزم أن يسلم في الشفع الثالث على رأس الركعتين، فيكون فيه مخالفة من هذه الحيثية، فكان المستحب فيه ثلاث تسليمات ليكون على نسق واحد. قال: هذا ما ظهر لي، ولم أره لغيري".

(کتاب الصلوۃ،‌‌باب الوتر والنوافل،ج:2،ص:13،ط:سعید)

الاعتصام للشاطبی میں ہے:

"وأما غير العالم وهو الواضع لها، لأنه لا يمكن أن يعتقدها بدعة، بل هي عنده مما يلحق المشروعات، كقول من جعل يوم الإثنين يصام لأنه يوم مولد النبي صلى الله عليه وسلم، وجعل الثاني عشر من ربيع الأول ملحقا بأيام الأعياد لأنه عليه السلام ولد فيه."

(الباب السادس في‌‌ أحكام البدع وأنها ليست على رتبة واحدة،ج:2،ص:548،ط:دار ابن عفان)

فتاوی شامی میں ہے:

"وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندة بل بنوع شبهة وكل من كان من قبلتنا

قوله وهي اعتقاد إلخ)۔۔۔وحينئذ فيساوي تعريف الشمني لها بأنها ما أحدث على خلاف الحق المتلقى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع شبهة واستحسان، وجعل دينا قويما وصراطا مستقيما اهـ فافهم."

(کتاب الصلوۃ،‌‌باب الإمامة،ج:1،ص:560،ط:سعید)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"قال الطيبي: وفيه أن من أصر على أمر مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟ وجاء في حديث ابن مسعود: " «إن الله عز وجل يحب أن تؤتى رخصه كما يحب أن تؤتى عزائمه» اهـ"

(کتاب الصلوۃ،باب الدعاءفی التشہد،ج:2،ص:755،رقم:946،ط:دار الفکر)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’مستحب پر (یعنی مباح الترک اعتقاد کرتے ہوئے) مداومت موجبِ کراہت نہیں ،بلکہ اصرار موجبِ کراہت ہے(والفرق بین المداومۃ والاصرار لا یخفیٰ علی من لہ أدنی ممارسۃ بالفقہ) ۔جن سورتوں کا مخصوص نمازوں میں پڑھناماثور ومنقول ہے،ان پر بھی مداومت اس طرح کہ ان کے علاوہ اور سورتیں نہ پڑھیں،اگرچہ اعتقاداً جائز سمجھتا ہو،مکروہ ہے۔‘‘

(باب البدعات والرسوم،ج:3،ص:50،51،ط:جامعہ فاروقیہ)

وفیہ ایضاً:

’’اذان کے بعد کچھ کلمات نصیحت:

سوال :ہمارے یہاں کئی سال سے جمعہ کے روز مسجد میں اذان کے بعد صلوۃ پکاری جاتی ہے،پھر سب لوگ سنت نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں ،بعد میں مؤذن عصا لے کر ’’ان اللہ ‘‘یا ’’لقد جاءکم‘‘ یا اردو میں کچھ نصیحت کرکے وہ عصا امام صاحب کے ہاتھ میں دیتے ہیں ،کیا یہ طریقہ صحیح ہے ؟اگر ہےتو کسی معتبر کتاب حدیث سے معلوم کریں۔

الجواب حامدا ومصلیا:

یہ طریقہ نہ قرآن کریم میں ہے،نہ حدیث شریف میں ،نہ خلفاء راشدین کے حالات میں ،نہ دیگر صحابہ کرام کے واقعات میں ،نہ ائمہ مجتھدین کے فقہ میں ،لہذا ایسی چیز اگرچہ صورۃً اچھی معلوم ہوتی ہو مگر درحقیقت وہ نہ خدا کا حکم ہے اور نہ رسول کا حکم ہے،نہ مسئلہ فقہ ہے،بلکہ وہ دین کے نام پر نئی چیز ہےجس کو دین سمجھا جارہا ہے،اس لیے اس کا  ترک کرنا لازم ہے۔‘‘

(باب البدعات والرسوم،ج:3،ص:102،ط:جامعہ فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100353

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں