بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کی ختنہ کا حکم


سوال

کیا عورت کی ختنہ بھی مسنون ہے؟ یا اس کی ختنہ کا حکم مختلف ہے؟ حدیث سے کیا کچھ معلوم ہوتا ہے؟ رہنمائی کیجیے۔ 

جواب

عورت کے ختنے کے بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے جیسے کہ شامی جلد خامس  ص نمبر ۵۲۲ میں مذکور ہے بعض فقہاء اس کو سنت اور  بعض مستحب کہتے ہیں اور اس پر سب متفق ہیں کہ اس کی کوئی تاکید نہیں ہے، ختنہ نہ کرانے  میں کوئی گناہ یا ملامت نہیں ہے، ابو داؤد  میں حدیث ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایک عورت عورتوں کا ختنہ  کیا کرتی تھی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فرمایا تھا" لاتنهكي" یعنی ختنہ میں کھال زیادہ نہ کاٹا کرے۔ اور شامی میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا"  ختان الرجال سنة و ختان النساء مكرمة"  یعنی مردوں کا ختنہ سنت ہے اور عورتوں کا ختنہ مکرمت  یعنی مردوں کی خوشنودی کے لئے ہے، مطلب یہ کہ مردوں کے ختنے کی طرح سنت مستقلہ مؤکدہ نہیں ۔(کفایت المفتی ، کتاب الختان و الخفاض ج نمبر ۲ ص نمبر ۳۴۷، دار الاشاعت)

فتاوی شامی میں ہے:

"و) الأصل أن (الختان سنة) كما جاء في الخبر (وهو من شعائر الإسلام) وخصائصه».....وختان المرأة ليس سنة بل مكرمة للرجال وقيل سنة

(قوله بل مكرمة للرجال)....وفي كتاب الطهارة من السراج الوهاج اعلم أن الختان سنة عندنا للرجال والنساء، وقال الشافعي: واجب وقال بعضهم: سنة للرجال مستحب للنساء لقوله - عليه الصلاة والسلام - «‌ختان الرجال سنة وختان النساء مكرمة."

(کتاب الخنثی، مسائل شتی ج نمبر ۶ ص نمبر ۷۵۱، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101721

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں