بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کے لیے ولیمے میں شرکت کا حکم


سوال

ان شاء اللہ ، کل ہمارے بیٹے کا ہمارے گھر پر ولیمہ ہے، ان شاء اللہ عشاء کی نماز کے فوراً بعد کھانا ہو گا۔ ولیمے میں عورتوں کا جانا جائز نہیں ، اس  لیے عورتوں کی دعوت نہیں ہے، اس آخری جملے کے بارےمیں شریعت کیا بتاتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عورتوں کے لیے ولیمے میں شرکت کرنا مطلقاً ممنوع نہیں ،بلکہ اس وقت ممنوع ہے جب مردوزن کا آپس میں  اختلاط ہو اور پردے کا نظام نہ ہو اور اگر مردوزن کا آپس میں اختلاط نہ ہو اور شرعی پردے کا اہتمام موجود ہو تو پھر عورتوں کے لیے ولیمے میں شرکت کرنا اور وہاں کھانا کھانا جائز ہے۔

فتاوی عبد الحئی میں ہے:

"استفتاء:ماقولکم رحمکم اللہ تعالی کہ خروج زنان شابہ در ولائم بشرطیکہ دران مداخلت غیر و بے پردگی و مانع دیگر از ممنوعات شرعیہ متصور نگردد درست است یا نہ ؟بينوا هذه المسئلة بدلائل من الفقه و الحديث فقط.

هو المصوب:از معائنہ کتبِ فقہ واضح است کہ ممانعت از رفتن زنان بمجالس ولائم برائے احتراز از فتنہ است بسببِ اجتماع در ہمچو مجالس چنانچہ در رد المحتار زیرِ قول صاحبِ درِ مختار"ويمنعها من زيارة الأجانب وعيادتهم والوليمةالخ "می نویسد :"ظاهره و لوكانت عند المحارم لأنها تشتمل علي جمع فلا يخلو من الفساد عادةانتهي."پس ہرگاہ در مجلس ولیمہ مداخلتِ غیر و بے پردگی و مانع شرعی دیگر نباشد درینصورت ممانعت را وجہی نیست ،البتہ ضرورتِ اذنِ شوہر خواہد بود ودر صحیح بخاری از انس رضی اللہ عنہ مرویست:أبصر النبي صلي الله عليه وسلم نساء و صبيانا مقبلين من عرس فقام ممتنا فقال: اللهم أنتم من أحب الناس إلي .انتهي قسطلانی در شرح آن مینویسد : فيه شهود النساء و الصبيان لوليمة العرس فلو ادعت إمرأة إمرأةً لوليمة أو دعت رجلا وجب أو استحب لا مع خلوة محرمة انتهي. فقط والله اعلم."

ترجمہ:سوال:جن ولیموں کی مجالس  میں غیر کی مداخلت اور بے پردگی نہ ہو اور ممنوعاتِ شرعیہ میں سے کوئی اور مانع بھی متصور نہ ہو وہاں عورتوں کو جانا درست ہے یا نہیں؟

جواب:کتبِ فقہ کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ  ولیموں کی مجالس میں عورتوں کے جانے کی ممانعت احترازِ فتنہ کی وجہ سے ہے جیسا کہ درِ مختار اور رد المحتار کی عبارتوں سے ظاہر ہے ،پس جب ولائم میں غیر کی مداخلت اور بے پردگی نہ ہو اور ا ن کے علاوہ بھی کوئی اور شرعی مانع نہ ہو تو ممانعت کی کوئی وجہ نہیں ،البتہ شوہر کی اجازت کی ضرورت ہوگی ،صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے کچھ عورتوں او ربچوں کو شادی سے واپس آتے ہوئے دیکھا تو ان پر فضل کرتے ہوئے کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ تم لوگ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو ،قسطلانی رحمہ اللہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں : اس سے عورتوں اور بچوں کا شادی کے ولیمہ میں شریک ہونا ثابت ہوتا ہے ،پس اگر کوئی عورت کسی عورت یا مرد کو بلائے تو اس کا قبول کرنا واجب یا مستحب ہے ،بشرطیکہ تنہائی ( مرد اور عورت کے درمیا ن میں ) نہ ہو۔ 

(کتاب الحظر والاباحۃ ،حکم خروج زنان شابہ در مجلس ولیمہ کہ بے پردگی و مانع شرعی وغیرہ دراں نباشد،75/2،ط:مطبع یوسفی،لکھنؤ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100751

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں