بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کے لیے مصنوعی بال لگانا/واٹر پروف میک اپ اور چہرے اور ابرو کے درمیان والے بالوں کو کاٹنے کا حکم


سوال

1۔ کیا عورتوں کے لیےمصنوعی بال یا مصنوعی پلکیں لگانا جائز ہے؟

2۔میک اپ جو واٹر پروف ہو اس کے ساتھ وضوء کرکے اگر نماز پڑھیں تو نماز ہوجاتی ہے یا نہیں؟

3۔عورتوں کے لیے چہرے کے بال ہٹانا کیسا ہے؟ابرو کے بال جو درمیان میں ہوتے ہیں ان کو ہٹانا کیسا ہے؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں اگر  کوئی عورت شوہر کی خاطر  تزیین و  آرائش کے لیے مصنوعی پلکیں یا مصنوعی بال  لگائے بشرطیکہ اس میں کسی حرام جزء کی آمیزش نہ ہو، تو ان کو لگانے میں گنجائش ہے، البتہ وضو کے لیے پلکیں نکال کر وضو کرنا ضروری ہوگا، باقی محض دکھلاوے کی خاطر یا فیشن کے لیے مصنوعی پلکیں لگانا جائز نہیں ہے۔

2۔ واٹر پروف  میک اپ چونکہ اعضاء وضو تک پانی پہنچنے سے مانع ہے،لہذا واٹر پروف میک اپ میں کیا  ہوا وضوء درست نہیں ہے، ہاں اگر وضوء کے بعد واٹر پروف میک اپ لگالیا جائے اور اس میں حرام اجزاء شامل نہ ہوتو ایسے  میک اپ میں نماز پڑھنا درست ہے۔

3۔خواتین کے لیے اپنے چہرے کے خلافِ عادت آنے والے بال مثلاً داڑھی، مونچھ، پیشانی وغیرہ کے بال یا کلائیوں اور پنڈلیوں کے بال یا جسم کے دیگر بال (سر کے علاوہ) صاف کرنا جائز ہے، البتہ ان بالوں کو نوچ کرنکالنا مناسب نہیں، کیوں کہ اس میں بلاوجہ اپنے جسم کو اذیت دیناہے،  کسی پاؤڈر وغیرہ سے کے ذریعہ یا کسی ایسے طریقہ سے جس سے تکلیف نہ ہو ، یہ بال صاف کر لیے جائیں تو زیادہ بہتر ہے،باقی عورت کے لیے  دونوں ابرؤں کے درمیان کے بال زیب وزینت کے حصول کے لیے کتروانا جائز نہیں،  البتہ اگر  اَبرو بہت زیادہ پھیلے ہوئے ہوں تو ان کو درست کرکے  عام  حالت کے مطابق   (ازالۂ عیب کے لیے )معتدل کرنے کی گنجائش ہے،لیکن عام حالات سے بڑھ کر اس کو مزید باریک کرنا شرعاًجائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وعفي قدر الدرهم وزناً في المتجسدة ومساحة في المائعة وہو قدر مقعر الکف داخل مقاصل الأصابع من النجاسة الغلیظة فلا یعفی عنها إذا زارت علی الدرهم مع القدرة علی الإزالة (مراقی الفلاح ) وعفي دون ربع ثوب من نجاسة مخففة ."

(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ص:335، ج:1، ط:سعيد)

وفیہ ایضا:

"ووصل الشعر بشعر الآدمي  حرام سواء كان شعرها أو شعر غيرها؛ لقوله صلى الله عليه وسلم : «لعن الله الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة والواشرة والمستوشرة والنامصة والمتنمصة». النامصة: التي تنتف الشعر من الوجه. والمتنمصة: التي يفعل بها ذلك.
(قوله: سواء كان شعرها أو شعر غيرها)؛ لما فيه من التزوير كما يظهر مما يأتي، وفي شعر غيرها انتفاع بجزء الآدمي أيضاً، لكن في التتارخانية: وإذا وصلت المرأة شعر غيرها بشعرها فهو مكروه، وإنما الرخصة في غير شعر بني آدم تتخذه المرأة لتزيد في قرونها، وهو مروي عن أبي يوسف، وفي الخانية: ولا بأس للمرأة أن تجعل في قرونها وذوائبها شيئاً من الوبر (قوله: «لعن الله الواصلة» إلخ) الواصلة: التي تصل الشعر بشعر الغير والتي يوصل شعرها بشعر آخر زوراً."

(کتاب الحظر والاباحۃ،ج:6،ص:372،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"( والنامصة إلخ ) ذكره في الاختيار أيضاً، وفي المغرب: النمص نتف الشعر ومنه المنماص المنقاش اهـ ولعله محمول على ما إذا فعلته لتتزين للأجانب، وإلا فلو كان في وجهها شعر ينفر زوجها عنها بسببه ففي تحريم إزالته بعد؛ لأن الزينة للنساء مطلوبة للتحسين، إلا أن يحمل على ما لا ضرورة إليه؛ لما في نتفه بالمنماص من الإيذاء.  وفي تبيين المحارم: إزالة الشعر من الوجه حرام إلا إذا نبت للمرأة لحية أو شوارب فلا تحرم إزالته بل تستحب."

(کتاب الحظر والاباحۃ،ج:6،ص:373،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" في فتاوى ما وراء النهر: إن بقي من موضع الوضوء قدر رأس إبرة أو لزق بأصل ظفره طين يابس أو رطب لم يجز وإن تلطخ يده بخمير أو حناء جاز. وسئل الدبوسي عمن عجن فأصاب يده عجين فيبس وتوضأ قال: يجزيه إذا كان قليلا. كذا في الزاهدي وما تحت الأظافير من أعضاء الوضوء حتى لو كان فيه عجين يجب إيصال الماء إلى ما تحته. كذا في الخلاصة وأكثر المعتبرات. ذكر الشيخ الإمام الزاهد أبو نصر الصفار في شرحه أن الظفر إذا كان طويلا بحيث يستر رأس الأنملة يجب إيصال الماء إلى ما تحته وإن كان قصيرا لايجب. كذا في المحيط. ولو طالت أظفاره حتى خرجت عن رءوس الأصابع وجب غسلها قولا واحدا. كذا في فتح القدير. وفي الجامع الصغير سئل أبو القاسم عن وافر الظفر الذي يبقى في أظفاره الدرن أو الذي يعمل عمل الطين أو المرأة التي صبغت أصبعها بالحناء، أو الصرام، أو الصباغ قال كل ذلك سواء يجزيهم وضوءهم إذ لايستطاع الامتناع عنه إلا بحرج والفتوى على الجواز من غير فصل بين المدني والقروي. كذا في الذخيرة وكذا الخباز إذا كان وافر الأظفار. كذا في الزاهدي ناقلا عن الجامع الأصغر. والخضاب إذا تجسد ويبس يمنع تمام الوضوء والغسل. كذا في السراج الوهاج ناقلاً عن الوجيز."

 (کتاب الطھارۃ،ج:1، ص:4، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101115

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں