بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کے لیے بھویں بنانا


سوال

کیا بھویں بنانا جائز ہے خاص طور پر عورتیں کے لیے؟ اگر کسی عورت کی بھویں بہت موٹی ہوں ۔اگر صرف دھاگے سے بھویں بنانا منع ہے تو مجھے اس کا مقصد سمجھ نہیں آرہا۔

جواب

 عورت کے لیے اَبرو کے اطراف سے بال اکھاڑ کر باریک دھاری بنانا جائز نہیں، اس پر حدیث میں لعنت وارد ہوئی ہے،  اسی طرح  دونوں ابرؤں کے درمیان کے بال زیب وزینت کے حصول کے لیے کتروانا جائز نہیں،  البتہ اگر  اَبرو بہت زیادہ پھیلے ہوئے ہوں تو ان کو درست کرکے عام حالت کے مطابق   (ازالۂ عیب کے لیے) معتدل کرنے کی گنجائش ہے۔

اور ممانعت کی صورت میں دھاگے سے باریک کی جائیں یا کسی اور چیز سے حکم ایک ہی ہوگا۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

«وعن عبد الله بن مسعود - رضي الله عنه - قال: لعن الله الواشمات، و المستوشمات، والمتنمصات، والمتفلجات للحسن، المغيرات خلق الله، فجاءته امرأة، فقالت: إنه بلغني أنك لعنت كيت وكيت. فقال: ما لي لا ألعن من لعن رسول الله  صلى الله عليه وسلم ومن هو في كتاب الله. فقالت: لقد قرأت ما بين اللوحين، فما وجدت فيه ما تقول. قال: لئن كنت قرأتيه لقد وجدتيه، أما قرأت: {وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا} [الحشر: ٧] ، قالت: بلى. قال: فإنه قال نهى عنه» . متفق عليه.

والمتنمصات) : بتشديد الميم المكسورة هي التي تطلب إزالة الشعر من الوجه بالمنماص أي المنقاش، والتي تفعله نامصة، قال النووي: وهو حرام إلا إذا نبت للمرأة لحية أو شوارب 

(کتاب اللباس باب الترجل ج نمبر ۷ ص نمبر ۲۸۱۹،دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"( والنامصة إلخ ) ذكره في الاختيار أيضاً، وفي المغرب: النمص نتف الشعر ومنه المنماص المنقاش اهـ ولعله محمول على ما إذا فعلته لتتزين للأجانب، وإلا فلو كان في وجهها شعر ينفر زوجها عنها بسببه ففي تحريم إزالته بعد؛ لأن الزينة للنساء مطلوبة للتحسين، إلا أن يحمل على ما لا ضرورة إليه؛ لما في نتفه بالمنماص من الإيذاء.  وفي تبيين المحارم: إزالة الشعر من الوجه حرام إلا إذا نبت للمرأة لحية أو شوارب فلا تحرم إزالته بل تستحب".

(کتاب الحظر و الاباحہ ج نمبر ۶ ص نمبر ۳۷۳،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200265

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں