بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کا تراویح کے لیے باہر جانا


سوال

عورتوں کا تراویح کی نماز پڑھنے  کے لیے باہر جانا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں عورتیں مسجد میں نماز کے لیے آتی تھیں، لیکن وہ بہترین زمانہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم بنفسِ نفیس موجود تھے، وحی کا نزول ہوتا تھا، اسلامی احکام نازل ہو رہے تھے اور عورتوں کے لیے بھی علمِ دین اور شریعت کے اَحکام سیکھنا ضروری تھا، لیکن اس وقت بھی عورتوں کو یہی حکم تھا کہ عمدہ لباس اور زیورات پہن کر اور خوشبو لگا کر نہ آئیں، نماز ختم ہونے کے بعد فورًا مردوں سے پہلے واپس چلی جائیں۔ اور ان پابندیوں کے ساتھ اجازت کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ترغیب یہی دی کہ عورتوں کا گھر میں اور پھر گھر میں بھی اندر والے حصے میں نماز پڑھنا مسجد نبوی میں نماز پڑھنے سے افضل ہے، جب کہ اِمام خود رسول اللہ ﷺ ہوتے تھے، مزید یہ کہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے علاوہ مزید آٹھ  مساجد تھیں ، ان میں علاقے کی خواتین جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے نہیں آتی تھیں صرف مرد حضرات ہی نماز پڑھنے آتے تھے  اگر خواتین کے لیے مسجد میں  آنامسنون ہوتا تو خواتین دوسری مساجد میں بھی  آتیں حالانکہ ایسا نہیں تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پردہ فرمانے کے بعد جب حالات بدل گئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے زمانہ میں یہ دیکھا کہ عورتیں اب ان پابندیوں کا خیال نہیں کرتیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی موجودگی میں عورتوں کو مسجد آنے سے منع کر دیا گیا، اور اس پر گویا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اتفاق ہوگیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ عورتوں کی جو حالت آج ہوگئی ہے وہ حالت اگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں ہوئی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم عورتوں کو مسجد آنے سے منع فرما دیتے۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کو زیادہ عرصہ  بھی نہیں گزرا تھا، اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا مزاج خوب سمجھتی تھیں؛ اسی لیے فرمایا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں عورتوں کی ایسی حالت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم عورتوں کو آنے سے منع فرما دیتے۔

اس لیے موجودہ پُرفتن دور میں خواتین کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ اپنے گھروں میں نماز ادا کریں، یہی ان کے لیے زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے؛ لہذا  عورتوں کا گھر سے باہر جا کر مسجد یا کسی بھی دوسری جگہ اجتماعی تراویح میں شریک ہونا مکروہ ہے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها، وصلاتها في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها."

(کتاب الصلاۃ ، باب التشديد في ذلك ج: 1 ص: 223 ط: المطبعة الأنصارية بدهلي)

مراسیل ابی داؤد میں ہے :

"عن ابن لهيعة، أن بكير بن الأشج، حدثه أنه "كان بالمدينة تسعة مساجد مع مسجد النبي صلى الله عليه وسلم يسمع أهلها تأذين بلال على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيصلون في مساجدهم، أقربها مسجد بني عمرو بن مبذول من بني النجار، ومسجد بني ساعدة، ومسجد بني عبيد، ومسجد بني سلمة، ومسجد بني رابح من بني عبد الأشهل، ومسجد بني زريق، ومسجد بني غفار، ومسجد أسلم، ومسجد جهينة، ويشك في التاسع."

(کتاب الطھارۃ، من الصلاۃ ص: 78 ط: مؤسسة الرسالة)

فتاوی شامی میں ہے :

"(ويكره حضورهن الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ (مطلقا) ولو عجوزا ليلا (على المذهب) المفتى به لفساد الزمان."

(کتاب الصلاۃ ، ‌‌باب الإمامة ج: 1 ص: 566 ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے :

"(قوله ولا يحضرن ‌الجماعات) لقوله تعالى {وقرن في بيوتكن} [الأحزاب: 33] وقال صلى الله عليه وسلم "صلاتها في قعر بيتها أفضل من صلاتها في صحن دارها وصلاتها في صحن دارها أفضل من صلاتها في مسجدها وبيوتهن خير لهن"ولأنه لا يؤمن الفتنة من خروجهن أطلقه فشمل الشابة والعجوز والصلاة النهارية والليلية قال المصنف في الكافي والفتوى اليوم على الكراهة في الصلاة كلها لظهور الفساد."

(کتاب الصلاۃ ، باب الإمامة ج: 1 ص: 380 ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100128

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں