بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کا مسجد میں آنا


سوال

کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عورتوں کی مسجد میں آنے پر پابندی لگائی تھی؟

جواب

 واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاکیزہ دور میں بعض مصالح (مثلاً خواتین کے لیے اسلامی عقائد اور اَحکام کی تعلیم) کی خاطر عورتوں کو مسجد میں آکر نماز باجماعت ادا کرنے کی اجازت دی گئی، بلکہ بعض احادیث میں آپ ﷺ نے انہیں روکنے سے منع بھی فرمایا، لیکن خود رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کے لیے جہاں تک ممکن ہو مخفی مقام پر اور چھپ کر نماز پڑھنے کو پسند فرمایا اور اسے ان کے لیے مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنے سے بھی زیادہ فضیلت اور ثواب کا باعث بتایا، چناں چہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک خاتون کمرہ میں نماز پڑھے یہ صحن کی نماز سے بہتر ہے، اور کمرے کے اندرچھوٹی کوٹھری میں نماز پڑھے، یہ کمرہ کی نماز سے بہتر ہے۔

لیکن رسول اللہ ﷺ کے پردہ فرمانے اور اسلامی احکام کی تکمیل اور تعلیم کا مقصد پورا ہونے کے بعد جب عورتوں کے خروج کی ضرورت بھی نہ رہی اور ماحول کے بگاڑ کی وجہ سے فتنے کا اندیشہ ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عورتوں (خصوصاً جوان عورتوں) کے نماز میں حاضر ہونے سے منع فرمادیا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اعتراض نہیں کیا۔اور نہ صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ بلکہ دیگر کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم   و تابعین  و فقہاء کرام نے بھی خواتین کو مسجد میں جانے سے ممانعت کا قول کیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر نبی کریم ﷺ وہ حالت دیکھتے جو عورتوں نے پیدا کردی ہے تو عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت نہ دیتے۔

ان وجوہات کی بنا پر حضرات فقہائے کرام نے یہ فتوی دیا ہےعورتوں کے لیے مسجد میں جاکر نماز ادا کرنا مکروہِ تحریمی ہے۔

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

"[5256] عبد الرزاق، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ عَاتِكَةَ بِنْتَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ وَكَانَتْ تَحْتَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَكَانَتْ تَشْهَدُ الصَّلَاةَ فِي الْمَسْجِدِ، فَكَانَ عُمَرُ، يَقُولَ لَهَا: وَاللَّهِ إِنَّكِ لَتَعْلَمِينَ مَا أُحِبُّ هَذَا، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَا أَنْتَهِي حَتَّى تَنْهَانِي، قَالَ: إِنِّي لَا أَنْهَاكِ، قَالَتْ: فَلَقَدْ طُعِنَ عُمَرُ يَوْمَ طُعِنَ، وإنَّهَا لَفِي الْمَسْجِدِ."

(مصنف عبد الرزاق،كتاب الصلاة، باب شهود النساء الجماعة،3/ 417، ط: الناشر: دار التأصيل)

مصنف ابن أبی شیبۃ میں ہے:

"7828 - حدثنا وكيع ثنا إياس بن دغفل، قال: سئل الحسن عن امرأة جعلت عليها أن أخرج زوجها من السجن أن تصلي في كل مسجد تجمع فيه الصلاة بالبصرة ركعتين، (فقال) الحسن: تصلي في مسجد قومها، فإنها لا تطيق ذلك، لو أدركها عمر ابن الخطاب لأوجع رأسها."

(مصنف ابن أبي شيبة،كتاب صلاة التطوع والإمامة،باب من كره ذلك، 5/ 138 ،الناشر: دار كنوز إشبيليا ، الرياض)

عنایہ میں ہے:

"وَأَمَّا فِي زَمَانِنَا فَلَا يَنْوِي النِّسَاءُ؛ لِأَنَّ ‌حُضُورَهُنَّ الْجَمَاعَاتِ مَتْرُوكٌ بِإِجْمَاعِ الْمُتَأَخِّرِينَ."

(العناية شرح الهداية بهامش فتح القدير،كتاب الصلاة،باب صفة الصلاة ،(1/ 320)، ط: دار الفكر، لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100433

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں