بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کا منع کیے جانے کے باوجود قبرستان جانا


سوال

عورتوں کا  قبرستان جانا کیسا ہے، کیا حرام ہے یا مکروہ ہے؟  اور اگر عورتوں کو منع کیا جائے اس کے باوجود جائیں تو کیا حکم ہے؟

جواب

عورتوں کے قبرستان میں جانے سے اگر غم تازہ ہو اور وہ بلند آواز سے روئیں تو ان کے لیے  قبرستان جانا  گناہ ہے؛ کیوں کہ حدیث میں ایسی عورتوں پر لعنت آئی ہے جو قبرستان جائیں؛ تاکہ غم تازہ ہو ۔نیز چوں کہ ان میں صبر کم ہوتا ہے، اس لیے گھر ہی سے ایصال ثواب کرنا چاہیے۔

اگر کوئی بوڑھی عورت عبرت اور تذکرہ آخرت کے لیے قبرستان جائے تو اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ وہ جزع فزع نہ کرے، اور جوان عورت کے لیے تذکرہ موت و آخرت کی نیت سے جانے میں بھی کراہت ہے۔ 

نیز چوں کہ عورت کے لیے شدید ضرورت کے بغیر گھر سے نکلنا شرعًا ناپسندیدہ ہے، حتی  کہ پنج وقتہ  نماز کے لیے نکلنا بھی عورت کے لیے مکروہ ہے، اور قبرستان جانا کوئی شرعی ضرورت نہیں ہے، لہٰذا عورت کے لیے قبرستان جانا مکروہِ تحریمی ہے، اور گھر کے سرپرست پر  لازم ہے کہ انہیں حکمت  و بصیرت کے ساتھ قبرستان جانے سے روکیں، اگر  وہ  اس  کے باوجود  نہ  مانیں  تو  وہ گناہ گار ہوں گی۔

بحر میں ہے:

"و صرح في المجتبى بأنها مندوبة، و قيل: تحرم على النساء و الأصح أنّ الرخصة ثابتة لهما."

منحۃ الخالق میں ہے:

"(قوله: و قيل: تحرم على النساء إلخ) قال الرملي: أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلا تجوز لهن الزيارة، وعليه حمل الحديث: «لعن الله زائرات القبور»، وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز، ويكره إذا كن شواب، كحضور الجماعة في المساجد."

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 210)، فصل: [الصلاة علي الميت في المسجد]، (كتاب الجنائز)، الناشر: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200780

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں