بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کے لیے تراویح کا حکم


سوال

 عورتوں پر بھی تراویح کی نماز سنتِ مؤکدہ ہے؟ حدیث شریف سے کوئی ثبوت ہے عورتوں کے باب میں؟

جواب

تراویح مردوں اور عورتوں سب کے لیے سنت مؤکدہ ہے، مگر عورتوں کے لیے جماعت  سنتِ  مؤکدہ نہیں ہے۔(کفایت المفتی، 3/ 406)

’’المنتقیٰ شرح موطا‘‘ میں ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں رمضان میں تراویح کے لیے قیام کرنا اتنا عام اور معمول بہ تھا کہ عورتیں بھی اس کا اہتمام کرتی تھیں اور اپنے گھروں میں ہی کسی قاری سے قرآنِ کریم  سنا کرتی تھیں۔ ’’موطأ الإمام مالك‘‘ میں روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ایک مدبر غلام تھے  حضرت ذکوان،  جو  رمضان میں آپ کو تراویح میں  قرآن سنایا کرتے تھے۔ خود امام مالک رحمہ اللہ کے بارے میں مروی ہے کہ آپ بھی حضرت  عائشہ رضی اللہ عنہا کی پیروی میں اپنے گھر والوں کو گھر میں ہی تراویح پڑھاتے تھے، لیکن جامع مسجد میں عورتوں کے لیے کوئی اہتمام نہیں ہوتا تھا۔

لہٰذا عورتیں تراویح کی سنت اپنے گھروں میں ہی ادا کریں۔ عورتوں  کے لیے جماعت کے  ساتھ  نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں جانا یا گھر سے باہر  کسی بھی جگہ جاکر باجماعت نماز میں شرکت کرنا مکروہ ہے، خواہ فرض نماز ہو یا  عید کی نماز ہو یا تراویح  کی جماعت ہو۔

حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں عورتیں مسجد میں نماز کے لیے آتی تھیں، لیکن وہ بہترین زمانہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم بنفسِ نفیس موجود تھے، وحی کا نزول ہوتا تھا، اسلامی احکام نازل ہو رہے تھے اور عورتوں کے لیے بھی علمِ دین اور شریعت کے اَحکام سیکھنا ضروری تھا، لیکن اس وقت بھی عورتوں کو یہی حکم تھا کہ عمدہ لباس اور زیورات پہن کر اور خوشبو لگا کر نہ آئیں، نماز ختم ہونے کے بعد فورًا مردوں سے پہلے واپس چلی جائیں۔ اور ان پابندیوں کے ساتھ اجازت کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ترغیب یہی دی کہ عورتوں کا گھر میں اور پھر گھر میں بھی اندر والے حصے میں نماز پڑھنا مسجد نبوی میں نماز پڑھنے سے افضل ہے، جب کہ اِمام خود رسول اللہ ﷺ ہوتے تھے۔

حضرت امّ حمید رضی اللہ عنہا نے بارگاہِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھنے کا شوق ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہارا شوق (اور دینی جذبہ) بہت اچھا ہے، مگر تمہاری نماز اندرونی کوٹھی میں کمرے کی نماز سے بہتر ہے، اور کمرے کی نماز گھر کے احاطہ کی نماز سے بہتر ہے، اور گھر کے احاطہ  کی نماز محلہ کی مسجد سے بہتر ہے، اور محلہ کی مسجد کی نماز میری مسجد (مسجدِ نبوی) کی نماز سے بہتر ہے۔

چناں چہ حضرت امّ حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نے فرمائش کر کے اپنے کمرے (کوٹھے) کے آخری کونے میں جہاں سب سے زیادہ اندھیرا رہتا تھا مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ) بنوائی، اور وہیں نماز پڑھا کرتی تھیں، یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا اور اپنے خدا کے حضور حاضر ہوئیں"۔ (الترغیب و الترہیب:۱/۱۷۸)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پردہ فرمانے کے بعد جب حالات بدل گئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے زمانہ میں یہ دیکھا کہ عورتیں اب ان پابندیوں کا خیال نہیں کرتیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی موجودگی میں عورتوں کو مسجد آنے سے منع کر دیا گیا، اور اس پر گویا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اتفاق ہوگیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ عورتوں کی جو حالت آج ہوگئی ہے وہ حالت اگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں ہوئی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم عورتوں کو مسجد آنے سے منع فرما دیتے۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کو زیادہ عرصہ  بھی نہیں گزرا تھا، اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا مزاج خوب سمجھتی تھیں؛ اسی لیے فرمایا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں عورتوں کی ایسی حالت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم عورتوں کو آنے سے منع فرما دیتے۔

اس لیے موجودہ پُرفتن دور میں خواتین کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ اپنے گھروں میں نماز ادا کریں، یہی ان کے لیے زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے؛ لہذا  عورتوں کا گھر سے باہر جا کر مسجد یا کسی بھی دوسری جگہ اجتماعی تراویح میں شریک ہونا درست نہیں ہے۔

البتہ اگر اپنے گھر میں ہی تراویح کی جماعت ہو رہی ہو اور گھر کا مرد ہی گھر میں تراویح کی امامت کرے اور اس کے پیچھے کچھ مرد ہوں اور گھر کی ہی کچھ عورتیں پردے میں اس کی اقتدا میں ہوں، باہر سے عورتیں نہ آتی ہوں، اور امام عورتوں کی امامت کی نیت کرے تو اس طرح عورتوں کے لیے تراویح کی نماز میں شرکت کرنا درست ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں۔ اسی طرح اگر امام تنہا ہو یعنی اس کے علاوہ کوئی دوسرا مرد نہ ہو اور مقتدی سب گھر کی عورتیں ہوں اور عورتوں میں امام کی کوئی محرم خاتون بھی موجود ہو اور امام عورتوں کی امامت کی نیت بھی کرے تو اس صورت میں بھی تراویح درست ہے، گھر کی جو خواتین امام کے لیے نامحرم ہوں وہ پردہ کا اہتمام کر کے شریک ہوں۔ لیکن اگر امام تنہا ہو اور مقتدی سب عورتیں ہوں، اور عورتوں میں امام کی کوئی محرم خاتون یا بیوی نہ ہو، تو ایسی صورت میں امام کے لیے عورتوں کی امامت کرنا مکروہ ہوگا؛ لہٰذا ایسی صورت سے اجتناب کیا جائے۔

المنتقى شرح الموطإ (ج:1، ص:210، ط:مطبعة السعادة - بجوار محافظة مصر):

’’(ص) : (مالك عن هشام بن عروة عن أبيه أن ذكوان أبا عمرو وكان عبدًا لعائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم فأعتقته عن دبر منها كان يقوم يقرأ لها في رمضان) .

(ش) : قوله: كان يقوم يقرأ لها في رمضان، يقتضي أن قيام رمضان كان أمرا فاشيا عند الصحابة معمولا به حتى إن النساء كن يلتزمنه ويتخذن من يقوم بهن في بيوتهن وفي هذا إجازة إمامة العبد في أيام رمضان لأن حكم المدبر حكم العبد. وقد روى أشهب عن مالك أنه يقوم في أهله حسبما فعلته عائشة وأما في المساجد الجامعة فلا.‘‘

الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:2، ص:43، ط: دار الفكر-بيروت):

’’(التراويح سنة) مؤكدة لمواظبة الخلفاء الراشدين (للرجال والنساء) إجماعا.

(قوله إجماعا) راجع إلى قول المتن سنة للرجال والنساء، وأشار إلى أنه لا اعتداد بقول الروافض إنها سنة الرجال فقط على ما في الدرر والكافي أو أنها ليست بسنة أصلا كما هو المشهور عنهم على ما في حاشية نوح، لأنهم أهل بدعة يتبعون أهواءهم لا يعولون على كتاب ولا سنة، وينكرون الأحاديث الصحيحة.‘‘

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144109200154

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں