لیڈیز کپڑوں پر کالر لگانے کا کیا حکم ہے؟ اگر یہ مشابہت غیر کی وجہ سے منع ہے،تو آج کل مسلمانوں میں اتنے عام ہیں ،کیا مشابہت کے ختم ہونے کا حکم لگے گا ؟اور اگر مردوں کی مشابہت کی وجہ سے منع ہے تو مردوں کے کپڑوں پر کچھ فرق سے ہوتے ہیں، پھر کیا حکم لگے گا ؟ اسی طرح جو کچھ بھی آج کل غیروں والا لباس مسلمانوں میں رائج ہوگیا ہے جیسے پینٹ شرٹ وغیرہ اس پر سے مشابہت کا حکم ہٹ جاۓ گا یا ابھی بھی باقی رہے گا ؟
لباس کے متعلق جو اسلام کے بنیادی اصول ہیں ان کا خیال رکھنا لازم ہے مثلا لباس پورا ہو اور اس سے ستر پوشی کا مقصد حاصل ہو غیروں کا شعار نہ ہو اور اس میں فساق وفجار کی مشابہت نہ ہو اور مرد عورتوں کی طرح لباس نہ پہنیں اور نہ ہی عورتیں مردوں کی طرح لباس پہنیں ۔اگر پینٹ شرٹ میں ان شرطوں کی رعایت ہو مثلا وہ بہت تنگ اور چست نہ ہو اور اعضا ء نمایاں نہ ہو ں تو اس کا پہننا جائز ہوگا مگر پھر بھی وہ صلحاء کا لباس نہیں ہے۔عورتیں اگر کپڑوں میں مردوں کی طرح کالر لگاتی ہیں تو منع ہے اور اگر ان کی طرح نہیں لگاتیں اور ان کے اورمردوں کے کالر میں فرق ہوتا ہے تو پھر عورتوں کے لیے کالر لگانا درست ہوگا۔
سنن ابی داود میں ہے:
"عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:، من تشبه بقوم فهو منهم."
(اول کتاب اللباس،باب في لبس الشهرة،ج:6،ص:144،رقم الحدیث 4031،ط:دار الرسالة العاملیة)
مرقاة المفاتيح میں ہے:
"(وعنه) : أي عن ابن عمر (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (من تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير."
(کتاب اللباس، ج:7،ص:2782،،رقم الحدیث:4347،ط:دارالفکر بیروت- لبنان)
معجمِ طبرانی میں ہے:
"عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لعن الله المتشبهين من الرجال بالنساء، ولعن المتشبهات من النساء بالرجال."
(عکرمہ عن ابن عباس،ج:11،ص252،رقم الحدیث:11647،ط:مکتبة ابن تیمیة القاھرہ)
بحر الرائق میں ہے:
"قال الولوالجي في فتاويه: لبس الثياب الجميلة مباح إذا كان لا يتكبر؛ لأن التكبر حرام، وتفسيره أن يكون معها كما كان قبلها."
(کتاب الصوم، فصل في عوارض الفطر في رمضان،ج:2،ص:302،ط:دارالکتاب الاسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509101221
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن