بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت میکے میں مسافر ہو تو اس کے لیے قربانی کا حکم


سوال

اگر کوئی خاتون کراچی میں (مقیم )رہتی ہے اور وہ اپنے میکے لاہور دس دن کے لیے جا رہی ہے تو کیا اس پر قربانی کرنا واجب ہے یا وہ مسافر کے زمرے میں آ ئے گی، کیوں کہ اس کے پاس مال بھی ہے، قربانی واجب بھی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی عورت میکے سے بیاہ کر اپنے سسرال مستقل طور پر  آجائے تو وہ سسرال اس کا وطن اصلی بن جاتا ہے، پھر اگر اس کے میکے اور سسرال کے درمیان مسافتِ  سفر یعنی 48 میل (سوا ستتر کلو میٹر) یا اس سے زیادہ فاصلہ ہو اور وہ عورت اپنے میکے پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت سے جائے تو وہ اپنے میکے میں مسافر شمار ہوگی اور وہاں قصر کرے گی۔

نیز مسافر پر قربانی واجب نہیں، چاہے اس کے پاس سفر میں یا گھر میں  قربانی کے نصاب کے بقدر یا اس سے زائد مال موجود ہو۔ البتہ اگر مسافر اپنی خوشی سے قربانی کرے یا اپنے گھر والوں کو قربانی کرنے کا کہہ دے تو اس کی قربانی ادا ہوجائے گی اور ثواب ملے گا؛  لہذا مذکورہ عورت اپنے میکہ (لاہور) میں دس دن ٹھہرنے کی نیت کی وجہ سے مسافر شمار ہوگی، اور اس پر قربانی واجب نہیں، البتہ اگر وہ خوشی سے قربانی کرنا چاہے تو کرسکتی ہے، ثواب ملے گا۔

الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:2، ص:131-132، ط:دار الفكر-بيروت):

’’(الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه (يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما (لا غير)...

(قوله: الوطن الأصلي) ويسمى بالأهلي ووطن الفطرة والقرار، ح عن القهستاني. (قوله: أو تأهله) أي تزوجه. قال في شرح المنية: ولو تزوج المسافر ببلد ولم ينو الإقامة به فقيل لا يصير مقيما، وقيل يصير مقيما؛ وهو الأوجه ولو كان له أهل ببلدتين فأيتهما دخلها صار مقيما، فإن ماتت زوجته في إحداهما وبقي له فيها دور وعقار قيل لا يبقى وطنا له إذ المعتبر الأهل دون الدار كما لو تأهل ببلدة واستقرت سكنا له وليس له فيها دار وقيل تبقى. اهـ. (قوله: أو توطنه) أي عزم على القرار فيه وعدم الارتحال وإن لم يتأهل، فلو كان له أبوان ببلد غير مولده وهو بالغ ولم يتأهل به فليس ذلك وطنا له إلا إذا عزم على القرار فيه وترك الوطن الذي كان له قبله شرح المنية. (قوله: يبطل بمثله) سواء كان بينهما مسيرة سفر أو لا، ولا خلاف في ذلك، كما في المحيط قهستاني، وقيد بقوله بمثله لأنه لو انتقل منه قاصدا غيره ثم بدا له أن يتوطن في مكان آخر فمر بالأول أتم لأنه لم يتوطن غيره، نهر. (قوله: إذا لم يبق له بالأول أهل) أي وإن بقي له فيه عقار قال في النهر: ولو نقل أهله ومتاعه وله دور في البلد لا تبقى وطنا له وقيل تبقى، كذا في المحيط وغيره. (قوله: بل يتم فيهما) أي بمجرد الدخول وإن لم ينو إقامة، ط.‘‘

و فيه أيضا (ج:6، ص:312):

’’(قوله: والإقامة) فالمسافر لا تجب عليه وإن تطوع بها أجزأته عنها وهذا إذا سافر قبل الشراء، فإن المشتري شاة لها ثم سافر ففي المنتقى أنه يبيعها ولا يضحي بها أي لا يجب عليه ذلك، وكذا روي عن محمد. ومن المشايخ من فصل فقال: إن كان موسرًا لايجب عليه وإلا ينبغي أن يجب عليه ولا تسقط بسفره، وإن سافر بعد دخول الوقت قالوا ينبغي أن يكون الجواب كذلك، اهـ، ط عن الهندية ومثله في البدائع.‘‘

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144212200037

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں