بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے بال بہت گرنے کی وجہ سے گمان ہوکہ ایک پور کے برابر نہیں کٹے، تو دم لازم ہوگا یا نہیں؟


سوال

اگر کوئی عورت  حج کے سفر میں عمرہ کرنا چاہ رہی ہو، اور ان کے بال بہت گرتے ہوں، اور گمان یہی ہو کہ اگر ایک پورے کے برابر بال کاٹتی ہیں تو ہو سکتا ہے کہ چوتھائی سر کے بال نہ کٹیں، جیسا کہ پہلے بتایا کہ اکثر بال جھڑنے کی وجہ سے کچھ لمبے اور کچھ چھوٹے ہیں تو اس صورت میں کیا کیا جائے؟  اس صورت کو دیکھتے ہوئے جو سب سے کم تر درجہ یعنی ایک چوتھائی سر کے بال کا پورے کے برابر کاٹنا وہ درست ہوگا یا نہیں؟  دونوں صورتوں میں مطلب کہ پورے سر کے پورے کے برابر بال کاٹ لیں   یا ایک چوتھائی سر کےپورے کے برابر بال کاٹ لیں ، اگر ان دونوں صورتوں میں بھی جتنے کٹنے چاہیے  تھے اتنے نہیں کٹے، کیوں کہ  کچھ بال چھوٹے تھے، بال چھوٹے بڑے ہونے کی وجہ سے، تو کیا دم واجب ہوگا یا نہیں؟  یاد رہے کہ عمرہ حج دونوں کرنے ہیں۔ کیا اگر یہ مسئلہ ہے تو عمرہ کم کریں؛ تاکہ کم بال کاٹے یا پھر کوئی اور حل ہے؟  تھوڑا تفصیل سے بتا دیں ۔

جواب

حج یاعمرہ کرنےکے بعد عورت پر قصر کرنالازم ہوتاہے، اور اس کی مقدار یہ ہے کہ  سر کے کم از کم چوتھائی سر کے بالوں سے ایک پور (انگلی کے تہائی حصہ) کے بقدر قصر کرے، ورنہ دم لازم آئے گا، اور سر کے تمام بالوں میں سے ایک پورے کے برابر بال کٹوانا افضل ہے،  تاہم اگر یہ گمان ہوکہ جتنے بال کٹنے چاہیے اتنے نہیں کٹیں گے، تو اس صورت میں مزید کچھ اضافی بال بھی کاٹ لیے جائیں، تاکہ مقدار پوری ہوجائے، البتہ دم لازم نہیں ہوگا۔

بذل المجہود میں ہے:

"(أن ابن عباس قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ليس على النساء حلق، إنما على النساء التقصير) وقدر التقصير فأقله بقدر أنملة، قال الشوكاني: فيه دليل على أن المشروع في حقهن التقصير، وقد حكى الحافظ الإجماع على ذلك، قال جمهور الشافعية: فإن حلقت أجزأها، قال القاضي أبو الطيب والقاضي حسين: لا يجوز، وقد أخرج الترمذي من حديث علي: "نهى أن تحلق المرأة رأسها.

وقال في "اللباب" وشرحه: والحلق مسنون للرجال، ومكروه للنساء، والتقصير مباح لهم، ومسنون أي مؤكد بل واجب لهن لكراهة الحلق كراهة تحريم إلا لضرورة.

قلت: ولو اعتمرت المرأة أياما وقصرت من شعرها كل يوم حتى بقي شعرها قدر أنملة، فإن حلقت رأسها وقعت في الحرمة أو الكراهة، وإن لم تحلق فلا تحل، ولم أر حكمه في ذلك في شيء من كتب المذهب إلا أن يقال: كما أن إجراء الموسى على من ليس له شعر في الرأس يكفيه، كذلك إجراء المقص لعلها يكفيها، والله أعلم."

(كتاب المناسك، باب الحلق والتقصير، ج: 7، ص: 466، ط: دار البشائر الإسلامية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ثم قصر) بأن يأخذ من كل شعرة قدر الأنملة وجوبا وتقصير الكل مندوب والربع واجب.

وفي الرد: (قوله بأن يأخذ إلخ) قال في البحر: والمراد بالتقصير أن يأخذ الرجل والمرأة من رءوس شعر ربع الرأس مقدار الأنملة كذا ذكره الزيلعي، ومراده أن يأخذ من كل شعرة مقدار الأنملة كما صرح به في المحيط. وفي البدائع قالوا: يجب أن يزيد في التقصير على قدر الأنملة حتى يستوفي قدر الأنملة من كل شعرة برأسه لأن أطراف الشعر غير متساوية عادة.

قال الحلبي في مناسكه وهو حسن اهـ وفي الشرنبلالية: يظهر لي أن المراد بكل شعرة أي من شعر الربع على وجه اللزوم ومن الكل على سبيل الأولوية فلا مخالفة في الأجزاء لأن الربع كالكل كما في الحلق اهـ فقول الشارح من كل شعرة أي من الربع لا من الكل وإلا ناقض ما بعده، وقوله: وجوبا قيد لقدر الأنملة فلا يتكرر مع قوله: والربع واجب والأنملة بفتح الهمزة والميم وضم الميم لغة مشهورة، ومن خطأ راويها فقد أخطأ واحدة الأنامل بحر."

(‌‌كتاب الحج، مطلب في رمي جمرة العقبة، ج: 2، ص: 515، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102552

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں