بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کو شہوت کے ساتھ دیکھ لینے سے نکاح کا حکم


سوال

پانچ عورتیں ہیں جو آپس میں بہنیں ہیں، ان میں سے کسی ایک کو شہوت کے ساتھ دیکھنےسے دوسری کی بیٹی سے  نکاح کا کیا حکم ہے؟ جب کہ  یہ دیکھنا ایسا ہو کہ اس میں دل میں شہوت پیدا  ہوئی جسم میں کوئی حرکت نہیں ہو۔ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

 اگر کوئی شخص کسی غیر محرم عورت کو شہوت کی نظر سے   دیکھ لےتو یہ ایک بڑا گناہ کا کام ہے، جس پر توبہ و استغفار لازم ہے، لیکن اس سے اس کے نکاح کے جواز پر کوئی فرق نہیں پڑتا، یعنی اگر اس عورت سے کوئی شخص نکاح کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، اسی طرح خود شہوت کی نگاہ سے دیکھنے والا شخص بھی اُس عورت  یا اس کی بیٹی یا اس کی بھانجی، بھتیجی سے  نکاح کر سکتا ہے؛   لہٰذا صورت مسئولہ میں کسی عورت کو شہوت سے دیکھنے کی وجہ سے اس کی بھانجی سے نکاح کرنا حرام نہیں ہوگا، بلکہ بدستور جائز  رہے گا۔

شہوت کے ساتھ دیکھنے سے حرمتِ مصاہرت اس وقت ثابت ہوتی ہے جب مرد یا عورت دوسرے کی شرم گاہ کو بغیر حائل کے شہوت کے ساتھ دیکھے، اس صورت میں اس مرد اور عورت کے اصول و فروع (والدین اور اولاد) ایک دوسرے کے لیے حرام ہوتے ہیں، بھانجا، بھانجی، بھتیجا، بھتیجی، خالہ اور پھوپھی  حرام نہیں ہوتے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3 / 33):

"(قوله: والمنظور إلى فرجها) قيد بالفرج؛ لأن ظاهر الذخيرة وغيرها أنهم اتفقوا على أن النظر بشهوة إلى سائر أعضائها لا عبرة به ما عدا الفرج".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)-[كتاب الصلاة]-[مطلب في ستر العورة]- صفحة -406

(وتمنع) المرأة الشابة (من كشف الوجه بين رجال) لا لأنه عورة بل (لخوف الفتنة) كمسه وإن أمن الشهوة لأنه أغلظ، ولذا ثبت به حرمة المصاهرة كما يأتي

(قوله ثبت به) أي بالمس المقارن للشهوة، بخلاف النظر لغير الفرج الداخل، فلا تثبت به حرمة المصاهرة مطلقا ط

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 33):

"وناظرة إلى ذكره .... والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى، وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قبله أو زيادته.

(قوله: وناظرة) أي بشهوة ... (قوله: وفي امرأة ونحو شيخ إلخ) قال في الفتح: ثم هذا الحد في حق الشاب، أما الشيخ والعنين فحدهما تحرك قلبه أو زيادته إن كان متحركاً لا مجرد ميلان النفس، فإنه يوجد فيمن لا شهوة له أصلاً كالشيخ الفاني، ثم قال: ولم يحدوا الحد المحرم منها أي من المرأة، وأقله تحرك القلب على وجه يشوش الخاطر قال ط: ولم أر حكم الخنثى المشكل في الشهوة، ومقتضى معاملته بالأضر أن يجري عليه حكم المرأة".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 37):

"(وإن ادعت الشهوة) في تقبيله أو تقبيلها ابنه (وأنكرها الرجل فهو مصدق) لا هي.

(قوله: وإن ادعت الشهوة في تقبيله) أي ادعت الزوجة أنه قبل أحد أصولها أو فروعها بشهوة أو أن أحد أصولها أو فروعها قبله بشهوة، فهو مصدر مضاف إلى فاعله أو مفعوله وكذا قوله: أو تقبيلها ابنه، فإن كانت إضافته إلى المفعول فابنه فاعل والأنسب لنظم الكلام إضافة الأول لفاعله والثاني لمفعوله ليكون فاعل يقوم الرجل أو ابنه كما أفاده ح (قوله: فهو مضاف)؛ لأنه ينكر ثبوت الحرمة والقول للمنكر، وهذا ذكره في الذخيرة في المس لا في التقبيل كما فعل الشارح فإنه مخالف لما مشى عليه المصنف أو لا من أنه في التقبيل يفتى بالحرمة ما لم يظهر عدم الشهوة، وقدمنا عن الذخيرة نقل الخلاف في ذلك فما هنا مبني على ما في بيوع العيون".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 200038

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں