بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جماع کے لیے بلانے پر بیوی کا انکار کرنا/ جنسی تسکین کے جائز طریقے


سوال

1):۔ شوہر ہفتے میں ایک بار ہمبستری کرنے  کے لیے بلائے اور بیوی بار بار منع کرے اور شوہر کی طرف پیٹھ کرکے لیٹ جائےاس کا شرعًا کیا حکم ہے؟

2):۔ اس صورت میں بیوی کے ساتھ ہمبستر ہوکر پچھلی راہ سے بغیر دخول کیے اوپر سے بغیر کپڑے کے یا کپڑے کی آڑ میں شہوت پوری کرسکتا ہے ؟

3):۔  یا تو اس صورت میں خواہش پوری کرنے کے لیے اپنے بیوی سے بیوی کے ہاتھ کے ذریعے  خواہش پوری کرواسکتا ہے ؟

جواب

1):۔  شریعت کا حکم یہ ہے کہ   شوہر کی جنسی فطری  ضرورت اور خواہش کی تکمیل بیوی پر لازم ہے، شرعی عذر کے  بغیر بیوی کے لیے  شوہر کو  تسکینِ شہوت سے روکنا جائز نہیں ہے، احادیث میں ایسی عورت کے  لیے  سخت وعیدات آئی ہیں، اور شوہر کو  بلا عذر طبعی وشرعی منع کرنے کی وجہ سے وہ عورت گناہ گار ہوگی۔

لیکن عذر کی صورت میں اگر بیوی شوہر کو منع کرے گی تو گناہ گار نہیں ہوگی،  جیسے  ماہواری کے ایام، بیماری، یا شوہر کا حدِ اعتدال سے زیادہ ہم بستر ہونا جس کی بیوی میں طاقت نہ ہو یا شوہر کی جانب سے تسکین شہوت کے لیےغیر فطری راستہ اختیار کرنے کا مطالبہ کرنا وغیرہ۔

بہر حال شوہر اور بیوی دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کا مکمل خیال رکھنا چاہیے،  نکاح کے مقدس رشتے کو پیار ومحبت سے چلانا چاہیے، ایک دوسرے پر جبر اور زبردستی کے بجائے حکمت اور بصیرت سے اپنی ضرورت کا تقاضا کرنا چاہیے، کبھی اگر عورت کو کوئی عذر ہو تو وہ شوہر کو آگاہ کردے اور شوہر اس کی رعایت رکھے اور اگر عذر نہ ہو تو بیوی شوہر کی خواہش کا احترام کرے۔

2):۔پچھلے راستے( دبر) سے پچھلے راستے میں داخل کیے بغیر اوپر سے کپڑوں کے اوپر کرنا جائز ہے، اسی طرح پشت کی جانب سے مقام جماع( اگلی شرمگاہ) میں وطی کرنا بھی جائز ہے ۔

3):۔عام احوال میں بیوی سے  مشت زنی کرانا  مکروہ تنزیہی ہے، لیکن اگر بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں ہو  یا مرض وغیرہ کی وجہ سے ہم بستری ممکن نہ ہو اور شوہر پر شہوت کا غلبہ ہو تو  بیوی اپنے ہاتھ سے شوہر کی تسکین کی تدبیر کرسکتی ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"ولو أمرها أن تنقل من جبل أصفر إلى جبل أسود ومن جبل أسود إلى جبل أبيض كان ينبغي لها أن تفعله". 

(مشکاۃ المصابیح، کتاب النکاح، باب عشرۃ النساء، ص:283، ج:2، ط:قدیمی)

ترجمہ:اگر اس کا شوہر اس کو یہ حکم دے کہ وہ زرد رنگ کے پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سیاہ پہاڑ پر لے جائے اور سیاہ پہاڑ سے پتھر اٹھاکر سفید پہاڑ پر لے جائے تو اس عورت کے لیے یہی لائق ہے کہ وہ اپنے شوہر کا یہ حکم بجا لائے۔

(از مظاہر حق، کتاب النکاح، ج:3، ص:373، ط:دارالاشاعت)

وفیہ ایضاً:

"وعن أبي هريرة قال: قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم: أي النساء خير؟ قال: «التي تسره إذا نظر وتطيعه إذا أمر ولا تخالفه في نفسها ولا مالها بما يكره". 

(مشکاۃ المصابیح، کتاب النکاح، باب عشرۃ النساء،ج:2، ص:283،ط:قدیمی)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سی بیوی بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ عورت جب اس کا خاوند اس کی طرف دیکھے تو وہ اس کو خوش کردے، اور جب شوہر اس کوئی حکم دے تو اس کو بجا لائے (بشرط یہ کہ وہ حکم خلافِ شرع نہ ہو) اور اپنی ذات اور اپنے مال میں اس کے خلاف کوئی ایسی بات نہ کرے جس کو وہ پسند نہ کرتا ہو۔ 

(از مظاہر حق، کتاب النکاح، ج:3، ص:375، ط:دارالاشاعت)

سنن الترمذي  میں ہے:

"عن علي بن طلق قال: أتى أعرابي النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، الرجل منا يكون في الفلاة فتكون منه الرويحة، ويكون في الماء قلة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا فسا أحدكم فليتوضأ، ولاتأتوا النساء في أعجازهن، فإن الله لايستحيي من الحق». وفي الباب عن عمر، وخزيمة بن ثابت، وابن عباس، وأبي هريرة.: «حديث علي بن طلق حديث حسن."

(باب ما جاء في كراهية إتيان النساء في أدبارهن، ج:3، ص:460، ط:  مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا وضو ٹوٹ جائے تو اسے چاہیے کہ وہ وضو کرلے، اور تم لوگ بیویوں سے پیچھے کے راستے سے ہم بستری نہ کرو، پس بے شک اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا ہے۔

سنن الترمذي  میں ہے:

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لاينظر الله إلى رجل أتى رجلاً أو امرأةً في الدبر."

(باب ما جاء في كراهية إتيان النساء في أدبارهن، جلد 3 ص:460، ط:  مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف رحمت کی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں جو کسی مرد یا عورت کے ساتھ پیچھے کے راستے سے بد فعلی کرے۔

سنن أبي داود  میں ہے:

" عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ملعون من أتى امرأته في دبرها."

(باب في جامع النكاح،ج:3،  ص:490، ط: دار الرسالة العالمیة)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ملعون ہے وہ شخص جو اپنی بیوی سے پیچھے کے راستے سے ہم بستری کرے۔

سنن الترمذي  میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من أتى حائضاً، أو امرأةً في دبرها، أو كاهناً، فقد كفر بما أنزل على محمد». لانعرف هذا الحديث إلا من حديث حكيم الأثرم، عن أبي تميمة الهجيمی، عن أبي هريرة، وإنما معنى هذا عند أهل العلم على التغليظ."

(باب ما جاء في كراهية إتيان الحائض، جلد 1، ص:242، ط:  مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نےاپنی بیوی سے حیض کی حالت میں ہم بستری کی یا پیچھے کے راستے سے ہم بستری کی یا کسی کاہن کے پاس گیا تو تحقیق  اس نے محمد ﷺ پر اتارے گئے قرآن کا انکار کیا۔ 

فتاوی شامی  میں ہے:

"ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه فلا ينافي قول المعراج.... وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة فهو آثم اهـ.

"بقي هنا شيء وهو أن علة الإثم هل هي كون ذلك استمتاعا بالجزء كما يفيده الحديث وتقييدهم كونه بالكف ويلحق به ما لو أدخل ذكره بين فخذيه مثلا حتى أمنى، أم هي سفح الماء وتهييج الشهوة في غير محلها بغير عذر كما يفيده قوله وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة إلخ؟ لم أر من صرح بشيء من ذلك والظاهر الأخير؛ لأن فعله بيد زوجته ونحوها فيه سفح الماء لكن بالاستمتاع بجزء مباح كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضًا".

(باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، ج: 2، ص: 399، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"(أو) بوطء (دبر)...إن في عبده أو أمته أو زوجته فلا حد إجماعا بل يعزر...وفي الفتح يعزر ويسجن."

(رد المحتار،كتاب الحدود، ج:4، ص:27، ط:سعيد)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"حل الوطء في القبل لا الدبر...لقوله تعالى: {نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم} [البقرة:223/ 2] أي في أي وقت وكيفية شئتم في المكان المعروف وهو القبُل...وقوله صلّى الله عليه وسلم: «ملعون من أتى امرأة في دبرها» (2) «من أتى حائضاً أو امرأة في دبرها، أو كاهناً فصدَّقه، فقد كفر بما أنزل على محمد صلّى الله عليه وسلم»....لكن لا تطلق المرأة بالوطء في دبرها، وإنما يحق لها طلب الطلاق من القاضي بسبب الأذى والضرر."

(القسم السادس، الفصل الثاني، المبحث الرابع، احكام الزواج، ج:9، ص:6590، ط:دار الفكر)

فتاوى هندیہ میں ہے :

"اللواطة مع مملوكه أو مملوكته أو امرأته حرام."

( الباب التاسع في اللبس ما يكره من ذلك وما لا يكره، کتاب الکراہیۃ ،ج:5،  ص:360، ط:دار الفکر )

وفیہ ایضاً:

"وفي كتاب الحيض للإمام السرخسي: لو استحل وطء امرأته الحائض يكفر، وكذا لو استحل اللواطة من امرأته. وفي النوادر عن محمد - رحمه الله تعالى -: لايكفر في المسألتين هو الصحيح."

(مطلب في موجبات الكفر أنواع منها ما يتعلق بالإيمان والإسلام، ج:2،  ص:273، ط: دار الفکر )

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"للزوجة على زوجها حق إتيانها وقضاء وطرها ، دل على ذلك حديث عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم له: ألم أخبر أنك تصوم النهار وتقوم الليل؟ قلت: بلى يا رسول الله. قال: فلا تفعل. صم وأفطر، وقم ونم، فإن لجسدك عليك حقا، وإن لعينك عليك حقا، وإن لزوجك عليك حقاوقال لأبي الدرداء رضي الله عنه: " فصم وأفطر، وصل ونم، وائت أهلك.

للحنفية وقول لبعض الشافعية، وهو أن للزوجة مطالبة زوجها بالوطء، لأن حله لها حقها، كما أن حلها له حقه. وإذا طالبته به فإنه يجب عليه ويجبر عليه في الحكم مرة واحدة، والزيادة على ذلك تجب عليه ديانة فيما بينه وبين الله تعالى من باب حسن المعاشرة واستدامة النكاح، ولا تجب عليه في الحكم عند بعض الحنفية، وعند بعضهم يجب عليه في الحكم، وقالوا: يأثم الزوج إذا ترك ما يجب عليه ديانة متعنتا مع القدرة على الوطء."

(بحث الوطء،حق المرأة على زوجها في الوطء، ج:44، ص:35، ط:طبع الوزارة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102854

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں